کانگریس میں اتھل پتھل

   

Ferty9 Clinic

2014 کے لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد سے سات سال کے عرصہ یمں بھی کانگریس پارٹی ابھی تک سنبھل نہیں پائی ہے ۔ مختلف ریاستوں یںہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کو لگاتار شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پارٹی کے کئی قائدین علیحدہ راستہ کا انتخاب کرنے لگے ہیں۔ کئی قائدین بی جے پی میںشامل ہوگئے ہیں اور جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق دوسرے بھی کچھ قائدین پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں جیوتر آدتیہ سندھیا نے پارٹی کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے وہاں پارٹی کی حکومت کو زوال کاشکار کردیا اور ان کی تائید سے بی جے پی نے ریاست میں اپنی حکومت قائم کرلی ۔ اس کے بعد سچن پائلٹ نے راجستھان میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی لیکن کسی طرح کانگریس نے یہ کوشش کامیاب ہونے نہیںدی اور ابھی تک سچن پائلٹ کانگریس میں برقرار ہیں۔ تاہم ایک اور نوجوان لیڈر جتن پرساد نے آج کانگریس سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی میںشمولیت اختیار کرلی ۔ یہ در اصل کانگریس میں موثر قیادت کے فقدان کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے ۔ ابھی تک پارٹی ایک مستقل اور سرگرم صدر کا انتخاب نہیںکر پائی ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد راہول گاندھی نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفی پیش کردیا تھا ۔ سونیا گاندھی کو پارٹی کی عبور صدر بناتے ہوئے کام چلایا جا رہا ہے ۔ ایک بار پھر کئی گوشوںسے راہول گاندھی کو پارٹی صدارت سونپنے کے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ تاہم جہاں تک کانگریس پارٹی کا سوال ہے اس مسئلہ پر وہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ایک گروپ جہاںشدت سے راہول گاندھی کی بحیثیت صدر واپسی کا حامی ہے وہیں ایک گروپ چاہتا ہے کہ صدارت کسی دوسرے فرد کو دی جائے ۔ جو کچھ بھی فیصلہ کرناپڑے کانگریس کو جلد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پارٹی صفوںمیں اس تعلق سے بے چینی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی میںاتھل پتھل کا سلسلہ جاری ہے ۔ موثر قیادت اور پارٹی قائدین کے اتحاد کے بغیر کانگریس میں نئی جان پڑنی مشکل ہے ۔
اب جبکہ ملک کی مزید پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور خاص طور پر اترپردیش پر سب کی نظریں ہیں جہاں آدتیہ ناتھ کی حکومت کے خلاف عوامی برہمی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے اور اس کا اندازہ بی جے پی نے بھی کرلیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ ایک بار پھر پس پردہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ امیت شاہ کی بچھائی ہوئی بساط پر ہی جتن پرساد نے بی جے پی میںشمولیت اختیار کرلی ہے ۔ حالانکہ پرینکا گاندھی کانگریس کیلئے اترپردیش کی کمان سنبھالی ہوئی ہیں لیکن جتن پرساد جیسے قائدین کا پارٹی سے ترک تعلق پارٹی کیلئے عوام میں اچھا اثر نہیں چھوڑتا ۔ جتن پرساد کانگریس کیلئے کتنا نقصان پہونچا سکتے ہیںیا پھر بی جے پی کیلئے کتنے مفیدثابت ہوسکتے ہیں یہ تو انتخابات میں ہی سمجھ میںآئیگا لیکن خود کانگریس کو اپنا گھر سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ اپنی خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ جو خامیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کرتے ہوئے ایک حکمت عملی کے ساتھ میدان میںاترنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ اترپردیش میں حالات بی جے پی کیلئے مکمل سازگار نہیں کہے جاسکتے کانگریس کو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پارٹی اپنی کمزوروں کا پوری دیانتداری کے ساتھ جائزہ لے اور ان کو دور کرنے کی ممکنہ حد تک کوشش کرے ۔ یہ عمل خود کانگریس کیلئے ضر وری ہوگیا ہے ۔
جو بے چینی کانگریس قائدین میںپائی جاتی ہے وہ اقتدار سے دوری کے ساتھ ساتھ اقتدار پر واپسی کی امیدیں کم ہونے کا بھی نتیجہ ہے ۔ کانگریس پارٹی ملک کی سب سے قدیم پارٹی ہے اسکے باوجود اسے اپنے وجود کا احساس دلانے اور اپنی بقا کیلئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ ایک موثر قیادت کے ذریعہ ہی حالات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے خلاف محاذ آرائی کو استحکام بخشا جاسکتا ہے ۔ اندرونی خلفشار اور اتھل پتھل کو ختم کرتے ہوئے ہی ایک موثر اپوزیشن اور متبادل کے طور پر کانگریس اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے وہ کانگریس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہے گی تاہم کانگریس کو بازی پلٹنے کیلئے خود کو تیار کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کیلئے قائدین میں جذبہ اور اتحاد لازمی شرط ہے ۔