کانگریس میں استعفوں کا رجحان

   

جب سفینہ ڈوبنے کو آگیا
سب سے پہلے ناخدا گھبرا گیا
کانگریس میں استعفوں کا رجحان
لوک سبھا انتخابات 2014 اور 2019 میں کانگریس کی بدترین ہزیمت کے بعد پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا رجحان پیدا ہوگیا ہے ۔ 3 جون کو راہول گاندھی کے باقاعدہ استعفیٰ کے بعد دیگر پاری قائدین نے بھی پارٹی کے عہدوں سے استعفے پیش کرنے شروع کردئیے ہیں ۔ ممبئی کانگریس صدر کی حیثیت سے ملنددیورا کے استعفیٰ کے بعد ایک اور سینئیر لیڈر جیوترویدتیہ سندھیا نے بھی کانگریس جنرل سکریٹری کے عہدہ سے استعفیٰ دیا ۔ ان دونوں نے بھی عوام کے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے پارٹی کی ناکامی کے لیے اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ اگر پارٹی کا ہر لیڈر اس طرح ایک ذمہ داری کے بہانے دوسری ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا عمل جاری رہا تو پھر ’ بھارت کو کانگریس سے مکت ‘ کرنے کی مہم چلانے والی پارٹیوں کا کام آسان ہوجائے گا ۔ حکمراں پارٹی بی جے پی نے گذشتہ پانچ سال کے دوران جارحانہ مہم چلاتے ہوئے کانگریس کی ساکھ کو منظم طریقہ سے کمزور کرنے کی کوشش کی ۔ اب کانگریس کے ارکان ہی حکمراں بی جے پی کے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں استعفیٰ دے کر مدد کررہے ہیں تو پھر ملک کی قدیم ترین پارٹی کا خاتمہ بھی کرنے والے کامیاب ہوجائیں گے ۔ کانگریس کے اندر یا کسی بھی پارٹی میں ناکامی کے بعد ایک سکوت طاری ہوجاتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ پارٹی قیادت تازہ دم ہو کر پارٹی کے دیگر قائدین اور ورکرس کے حوصلے بلند کرنے کی مہم میں مصروف ہوجاتی ہے لیکن کانگریس کی سبکدوش قیادت کو انتخابی ناکامی کا صدمہ اس قدر ہوگیا کہ انہوں نے پارٹی کی ذمہ داری مضبوطی سے سنبھالنے کے بجائے آسان راہ اختیار کرلی ۔ 20 سال قبل کانگریس کی قیادت سیتارام کیسری ، پی وی نرسمہا راؤ اور چند دیگر کے ہاتھ میں تھی مگر سونیا گاندھی نے جب قیادت سنبھالی تو پارٹی کیڈرس میں حوصلہ پیدا ہوگیا اور ان کی نگرانی میں کانگریس نے وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکمرانی کے ساتھ بہتر انداز میں باگ ڈور سنبھالی لیکن اقتدار سے محرومی کا غم اس قدر شدید ہونے کا احساس ظاہر کرنا غلط ہے ۔ آج اقتدار سے محروم ہوتی ہے تو کل دوبارہ عوام کا خط اعتماد مل جائے گا ۔ پارٹی قیادت کو محاسبہ کرنے کی بجائے اس ذمہ داری سے دور ہو کر تفریح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو پھر پارٹی کے دیگر قائدین اور عام ورکرس بھی یہی خیال کریں گے اور خود کو پارٹی سرگرمیوں سے دور رکھیں گے ۔ نتیجہ میں کانگریس مکت بھارت یقینی بنانے کی خواہش رکھنے والوں کو کامیابی ملے گی ۔ کانگریس پارٹی کی یہ بدبختی ہے کہ اندرا گاندھی کے بعد پارٹی کو ایک مضبوط قیادت نہیں ملی ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے اندر مضبوط قیادت کی صلاحیتیں تلاش کرنے والوں کو دھکہ ضرور لگا ہے ۔ کانگریس نے 1980 کے دہے میں راجیو گاندھی کی قیادت کے تحت غیر معمولی اثر پیدا کرلیا تھا ۔ 1990 کے اوائل پی وی نرسمہا راؤ کی گرفت مضبوط تھی لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا ۔ کانگریس کے اندر جب سے دو گروپس یعنی ایک بائیں بازو دوسرا دائیں بازو گروپ پیدا ہونے سے اس کا سیاسی توازن جھکولے کھانے لگا ہے ۔ ایک گروپ ہندو رائٹ ونگ کے قریب ہے تو دوسرا گروپ نہروین سیکولرازم کا حامی ہے ۔ سونیا گاندھی کی قیادت کے تحت کانگریس نے کئی غلطیاں کی تھیں اس میں اصل غلطی ہندوؤں کے ساتھ مبینہ اتحادکی اس پارٹی کو قیمت چکانی پڑی ۔ پارٹی کو بدنام کرنے میں خود اس کے بعض سینئیر قائدین نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ نریندر مودی کے سامنے کانگریس کے سینئیر قائدین اس قدر کمزور پڑ گئے ہیں کہ ایسا معلوم ہونے لگا تھا کہ بی جے پی قیادت کی جارحانہ بیان بازی کے سامنے کانگریس قائدین کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے ۔ کانگریس کو بدنام کرنے میں پارٹی کے بعض سینئیر قائدین بھی ذمہ دار ہوسکتے ہیں ۔ سابق مرکزی وزراء جئے رام رمیش اور منی شنکر ائیر نے عین انتخابات کے موقع پر اس قدر تلخ بیانات دئیے کہ اس سے کانگریس کی شبیہہ خراب ہونے لگی ۔ ان تمام حقائق کے باوجود کانگریس نے حالیہ 3 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے تو یہ پارٹی کی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے مگر پارٹی کی اصل قیادت ہی کمزور پڑ جائے تو دیگر قائدین کے حوصلے بھی پست ہوتے ہیں ۔ جیوترویدیہ سندھیا اور ملنددیورا کے استعفے بھی پست حوصلے کا نتیجہ ہے ۔۔