کانگریس کی نئی عبوری صدر

   

آخر زمانہ آئینہ دکھلا کے رہ گیا
لانا پڑا تمہیں کو تمہارے جواب میں
کانگریس کی نئی عبوری صدر
تقریبا تین مہینوں کے انتظار کے بعد کانگریس میں کم از کم نئی عبوری صدر کا تو انتخاب کرلیا گیا ہے ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس کل منعقد ہوا جس میںکئی ناموں پر غور و خوض کیا گیا تاہم کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث سونیا گاندھی ہی کو دوبارہ پارٹی کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ سونیا گاندھی بھی پارٹی کی عبوری صدر ہی ہونگی اور ان کی موجودگی میں کسی نئے صدر کا انتخاب عمل میں آئیگا تاہم یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اب پارٹی کسی صدر کے بغیر کام نہیں کر رہی ہے جیسا گذشتہ تین مہینوں کے دوران چل رہا تھا ۔ لوک سبھا انتخابات میںپارٹی کی کراری شکست کے بعد سے راہول گاندھی کے پارٹی صدارت چھوڑدینے کے بعد سے پارٹی کسی صدر کے بغیر کام کر رہی تھی تاہم اب سونیا گاندھی کو دوبارہ پارٹی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ سونیا گاندھی کانگریس کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہونگی ۔ یہ حقیقت ہے کہ سونیا گاندھی کے ماضی میں کانگریس صدر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کانگریس نے ملک بھر میں استحکام حاصل کیا تھا ۔ مرکز میں دو مرتبہ پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا تھا اور ملک کی کئی ریاستوں میں پارٹی کامیابی حاصل کرسکی تھی اور وہاں پارٹی کی حکومتیں قائم ہوئی تھیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سونیا گاندھی ہی کے دور صدارت میں کانگریس کے زوال کا بھی آغاز ہوا تھا اور پارٹی دھیرے دھیرے ملک بھر میں کمزور ہوگئی تھی ۔ اس کا نہ صرف مرکز کا اقتدار چلا گیا تھا بلکہ کئی ریاستوں میں بھی پارٹی اقتدار سے محروم ہوگئی تھی ۔ راہول گاندھی کو پارٹی نے کئی گوشوں سے مطالبات کے پیش نظر پارٹی کی صدارت سونپی تھی اور راہول گاندھی نے مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں پارٹی کو اقتدار دلانے میں سرگرم رول ادا کیا تھا ۔ تاہم لوک سبھا انتخابات کی شکست نے راہول گاندھی کو دلبرداشتہ کردیا اور وہ عہدہ سے مستعفی ہوگئے ۔ راہول گاندھی نوجوان قائدین کو اہم ذمہ داریاں سونپنا چاہتے تھے۔ نئی ٹیم بنانا چاہتے تھے تاہم انہیں اس کا موقع نہیں دیا گیا اور اس کا نتیجہ انتخابی شکست کی صورت میںسامنے آیا ۔
شائد راہول گاندھی اسی صورتحال کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوگئے ۔ اس کا اظہار انہوںنے بالواسطہ طور پر کیا بھی ہے اور کہا کہ پارٹی کے دو چیف منسٹروں نے پارٹی کے دوسرے امیدواروں کی بجائے اپنے فرزندان کو کامیاب کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھائی اور اسی وجہ سے پارٹی کو شکست ہوئی ہے۔ جو کچھ ہوچکا ہے وہ ماضی کا حصہ اور قصہ پارینہ بن چکا ہے تاہم اب بھی پارٹی کیلئے بیدار ہونے اور اپنی صفوںمیں اتحاد اور استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو کانگریس کو محسوس کرنا چاہئے اور سونیا گاندھی کا انتخاب بھی ہوچکا ہے تو پارٹی کو دوبارہ اپنی صفوںمیں نئی جان ڈالنے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جو کارکن اب بھی پارٹی کے ساتھ ہیں ان کے جذبات اور احساسات کو سمجھا جائے ۔ عوام کی رائے کو محسوس کیا جائے ۔ عوام میں جو فکر اور تشویش ہے اس کو حقیقی انداز میں بھانپتے ہوئے اجاگر کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ عوام کی تائید دوبارہ حاصل کی جاسکے ۔ جو پروپگنڈہ کا ماحول ملک بھر میں پیدا کردیا گیا ہے اس سے نمٹنے کیلئے بھی کانگریس کو ایک جامع اور منظم حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ایک مکمل منصوبہ اور حکمت عملی کے ساتھ پارٹی کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور جو جدوجہد ہے وہ بے تکان کی جانی چاہئے ۔
سونیا گاندھی کی قیادت کانگریس کے تمام گوشوں کیلئے قابل قبول ہے ۔ وہ پہلے بھی طویل عرصہ تک پارٹی کی صدر رہ چکی ہیں۔ تاہم ایک بات ضرور سمجھنی چاہئے کہ جب تک پارٹی میں نئے چہروں کو موقع نہیں دیا جاتا اور نئی صلاحیتوں کو سامنے نہیںکیا جاتا اس وقت تک پارٹی کو آگے بڑھانے میں کامیابی نہیں مل پائے گی ۔ پارٹی کو نئی حکمت عملی ملک کے عوام اور خاص طور پر اس ملک کے نوجوانوں کی خواہشات اور توقعات کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے ۔ حقیقی مسائل کو موثر انداز میںپارٹی کو اٹھانا چاہئے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو موثر ڈھنگ سے اجاگر کیا جانا چاہئے ۔ عوام کو اپنی پالیسیوں کا حصہ دار بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عوام میں یہ احساس پیدا کیا جاسکے کہ وہ واقعی اس ملک میں جمہوریت کے تحفظ اوراستحکام کیلئے جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں ۔ مستحکم انداز میں دوبارہ پارٹی صفوں میں جان ڈالنے کیلئے سب کو کمر کس لینی چاہئے ۔