’’کتاب بینی ایک بجھتی شمع‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ہر سال ساری دنیا میں ۲۳ اپریل کو ’’عالمی یوم کتاب‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر لوگوں میں کُتب بینی کا فروغ، اشاعت کُتب اور اُس کے حقوق کے بارے میں شعور کو اُجاگر کرنا ہے۔ ہمارے اسلاف بہت پیارے تھے جو کتاب کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اپنی کتابوں پر لکھتے تھے ’’اے دیمک کے بادشاہ تجھے قسم ہے کہ اس کتاب کو اپنی خوراک نہ بنانا‘‘۔ قربان جایئے اُن کی اس ادا پر۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلایا جاتا تھا۔ اُس زمانے کے نواب راجہ مہاراجہ اپنے کُتب خانہ پر ناز کیا کرتے تھے۔ چونکہ دولت بے حساب تھی۔ دُنیا بھر کی نادر اور نایاب کتابیں کھینچی کھینچی یہاں چلی آتی تھیں۔ تاتاریوں نے جو لاکھوں کتابیں دریا میں پھینک دی تھیں، اُن میں سے کچھ بچی ہوئی کتابیں پٹنہ کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اُسی طرح اسپین میں عربوں کی جو کتابیں جلادی گئی تھیں اُن میں سے بعض ادھ جلی کتابیں رام پور تک آگئی تھیں۔ الحمدللہ۔ بھوپال تو ایک زمانہ میں علم کا گہوارہ تھا۔ وہاں کے شاہی محلوں میں نہ جانے کتنی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ پتہ نہیں وہ سلامت ہیں یا نہیں۔ حیدرآباد دکن کے محلات میں تو نایاب کتابوں سے بھری الماریاں رکھے رکھے خاک ہوگئیں۔ اب کوئی کہاں تک ماتم کرے اور آنسو بہائے۔ ’’کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے‘‘۔
کتابوں کے انتخاب میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ فحش اور فضول کی کتابوں سے دوری رکھنا چاہئے۔ بامقصد کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔ کتابیں ہماری زندگی کی راہوں میں ہماری بہترین ساتھی، معلم اور رہنما ثابت ہوتی ہیں۔ کتابوں میں جو علوم کا خزانہ ہے وہ لازوال ہے۔ دولتِ دُنیا چھن سکتی ہے مگر کتب بینی سے حاصل کیا ہوا علم کبھی چُرایا نہیں جاسکتا۔دورِ حاضر کی ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (Artificial Intelligence) نے خاص کر نوجوانو ںمیں کتب بینی کو تقریباً ختم ہی کردیا۔ خود اس کے موجد نے دُنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ایک ’’عالمی معاشرتی بھونچال‘‘ آئے گا اور بیروزگاری کی لہر ساری دُنیا میں پھیل جائے گی۔
اہل اسلام میں مطالعہ کتب کی بڑی اہمیت ہے کیوں کہ کتاب الٰہی کا پہلا لفظ ’’اقرا‘‘ (پڑھو) ہے۔ اِسی لفظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاتم انبیاء و مرسلین ﷺ کی نبوت اور رسالت کا آغاز کیا اور یہی پہلا حکم ہے جو رب العالمین نے مصطفی کریم ﷺ کو عطا فرمایا۔ امام حاکم بیان فرماتے ہیں، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قیدوا العلم بالکتابۃ‘‘۔ علم کو کتاب میں قید کرو یعنی لکھا کرو۔ اِسی بناء پر علماء و مفکرین کتاب کو ’’کنز اور خزانہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے ’’علم حاصل کرو کیوں کہ اللہ عزوجل‘‘ اس کتاب کے سبب قوموں کو بلندیوں سے نوازتا ہے اور اُنہیں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایسا رہنما اور ہادی بنادیتا ہے کہ اُن کی پیروی کی جاتی ہے۔ (کتاب قوت القلوب) حصول علم کے لئے چار چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے (۱) پڑھنا (۲) لکھنا (۳) سُننا (۴) دیکھنا۔
ان میں سب سے بہترین حصولِ علم پڑھنا یعنی مطالعہ کرنا ہے۔ مشہور مقولہ ہے ’’مطالعہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں‘‘۔ امام جوزیؒ فرماتے ہیں ’’تمہارے گھر میں ایک ایسی کوٹھری ہونی چاہئے جس میں تم خلوت اختیار کرسکو تاکہ اُس میں جاکر اپنی کتابوں کی سطروں سے گفتگو کرسکو اور اپنی فکر کے میدان میں دوڑ سکو۔ یعنی خلوت اور تنہائی میں انسان کو حق تعالیٰ کی معرفت اور اُس کی مناجات کی طرف لے جائیں اور بہترین ہم نشین بنیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ’’سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر۔ کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر‘‘۔ مشہور مسلم مفکر دانشور اور سائنسداں اور فلسفی ابو نصر الفارابی ۷۰ زبانیں جانتے تھے باوجود انتہائی غربت کے اپنی کتب بینی اور علم سے دُنیا میں بڑا مقام پیدا کیا۔امام جرجانیؒ لکھتے ہیں ’’میں نے زندگی کا مزہ اُس وقت تک نہ چکھا جب تک میں نے کتابوں کو اپنی تنہائی کا ہم نشین نہ بنالیا‘‘۔
ارسطو سے پوچھا گیا کہ آپ کسی شخص کو جاننے کے لئے کیا پیمانہ استعمال کرتے ہیں تو اُنھوں نے کہا ’’میں اُس سے پوچھتا ہوں کہ تُو نے کتنی کتابیں پڑھیں اور کیا کیا پڑھا ہے‘‘۔
امام بخاریؒ سے پوچھا گیا ’’حافظہ کی دوا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ’’کتابوں کا مطالعہ کرتے رہنا حافظہ کی مضبوطی کے لئے بہترین دوا ہے‘‘۔ (جامعہ البیان، العلم ص ۱۔۵)
ایک حالیہ عالمی سروے کے مطابق ایک یہودی سال میں اوسطاً ۹ کتابیں پڑھتا ہے۔ ہمارے مسلمانوں کا یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہم سال میں ایک گھنٹہ بھی مشکل سے کتاب پڑھتے ہیں۔
دُنیا کی سب سے مقدس کتاب ’’قرآن الحکیم‘‘ اور سب سے مقدس ہستی ’’صاحبِ قرآن ﷺ‘‘ کی سنت کی کتابیں ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتوں میں عظیم نعمتیں ہیں۔ ہم اُن کو اتنی اوپر اُٹھاکر رکھ دیا ہے کہ اب وہاں تک ہمارا ہاتھ پہنچ نہیں پاتا۔ اے مسلمان! تُو نے یہ کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ کے آخری خطبہ کی اُس تنبیہ کو بھلادیا جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’لوگو! میں تمہارے بیچ دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ ایک قرآن مجید اور دوسری میری سُنتیں۔ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اے مسلمان تُو نے رسول اللہ ﷺ کی اِس تاکید کو بُھلادیا اور تیرے ہاتھ سے یہ رسّی چھوٹ گئی۔ اُس لئے اللہ نے بھی تجھے چھوڑ دیا اور تو گمراہ ہوگیا۔ اے مسلمان تو قرآن مجید اور صاحبِ قرآن سے جُڑ جا جو اتحادِ ’’اُمت محمدیؐ‘‘ کا ضامن ہے۔ اِدھر تُو نے یہ دونوں کتابیں کھولیں، اُدھر اللہ نے تیرے دل و دماغ میں ہدایت کے دروازے کھول دیئے۔قرآن مجید اور احادیث کی کتابوں کو پڑھتے رہئے۔ ضرور ہے کہ وہ آپ کے حق میں ہدایت کی دُعائیں کرتی رہیں گی۔ اس کے علاوہ بامقصد کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہئے تاکہ کتب بینی کی یہ بُجھتی شمع پھر سے بھڑک اُٹھے۔ ان شاء اللہ
روز محشر میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوچھے گا ’’یہ عقل و ذہانت، شعور و نظر۔ بتا تو نے کیا کیا میرے لئے؟‘‘