کراچی میں عثمانیہ جنرل اسپتال عثمانیہ کالونی ، عثمانیہ گرلز کالج

   

امتیاز متین (کراچی)

نظام حیدرآباد میر عثمان علی خاں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی عشرے بیت چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنی سادہ زندگی اور فلاح انسانیت کے کاموں کے جو عملی نمونے چھوڑے ہیں۔ اس سے پاکستان، بھارت اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں لاکھوں لوگ آج بھی فیض یاب ہورہے ہیں۔ حیدرآباد دکن کے ایک رہنما بہادر یار جنگ سے منسوب اکیڈیمی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے یہ کہا تھا کہ نظام حیدرآباد کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کردیا تھا تاکہ لوگوں کو راحت اور انصاف ملے۔ نظام حیدرآباد نے یہ فیصلہ محمد علی جناح کے مشورے پر کیا تھا جو ریاست حیدرآباد کے آئینی معاملات میں میر عثمان علی خاں کو قانونی مشورے دیا کرتے تھے۔
1948ء میں ریاست حیدرآباد بھارت میں ضم کرلی گئی لیکن اس کے باوجود میر عثمان علی خاں کو ہمیشہ حیدرآبادیوں کی فلاح و بہبود کا خیال رہا۔ چاہے وہ حیدرآباد دکن میں رہتے رہے ہوں یا کسی اور ملک یا شہر میں جابسے ہوں۔
آپ کو بتادوں کہ جیل روڈ کے چوراہے پر حیدرآباد کالونی کی سب سے نمایاں سرخ عمارت عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی ہے جو کراچی سنٹرل جیل کے مرکزی دروازے کے سامنے ایستادہ ہے۔ یہ ہسپتال حیدرآباد ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن ٹرسٹ کے تحت چلایا جاتا ہے جسے 1950ء میں رجسٹر کروایا گیا تھا۔ یہ ٹرسٹ حیدرآباد دکن کے وزیراعظم میر لیاقت علی مرحوم نے بنایا تھا۔ اس ٹرسٹ کا ایک کام حیدرآباد سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے خاندانوں کی بحالی بھی تھا۔ بعدازاں اس ٹرسٹ نے مختلف فلاحی پروجیکٹس بنائے اور چلائے جن میں سے ایک کامیاب پروجیکٹ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل ہے جس کا سنگ بنیاد 1950ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ اسپتال بورڈ آف ٹرسٹیز چلاتے ہیں جن میں مختلف ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری افسران، ٹیکنو کریٹ اور ڈاکٹر شامل ہیں۔ ان دنوں ٹرسٹی بورڈ کے چیرمین انجینئر محمد عتیق اللہ اور وائس چیرمین ڈاکٹر رضا بیگ ہیں۔ ٹرسٹی بورڈ کے دوسرے ارکان میں ڈاکٹر تقی الدین عادل، ڈاکٹر شہزاد عالم ، انجینئر اصغر جمیل رضوی ، احمد محی الدین اور کیپٹن (ریٹائرڈ) احمد ظہیر شامل ہیں۔ ہسپتال کے چیف آپریٹنگ آفیسر شکیل احمد مشتاق ہیں۔
عثمانیہ ہسپتال بنانے کا بنیادی مقصد متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ آج یہاں غریب مستحق مریضوں کا زکوۃ فنڈ سے بھی علاج کیا جاتا ہے جس میں ہر سال اضافہ ہوجارہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2013-14ء میں زکوۃ فنڈ کے مد میں 52 لاکھ 23 ہزار روپئے خرچ کئے گئے تھے جبکہ 2019-20ء میں زکوۃ فنڈ میں ملنے والی رقم میں سے 3 کروڑ 28 لاکھ روپئے کی رقم مستحق مریضوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کی گئی۔ کراچی کی آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے جبکہ حالیہ برسوں میں خراب معاشی حالات کے باعث مستحقین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں عام طور پر اور خاص طور پر کراچی میں زکوۃ اور خیرات دینے کا رواج زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلاحی اداروں کو زکوۃ اور خیرات کے فنڈز مل جاتے ہیں تاہم ہسپتال میں آنے والے مستحق مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ عثمانیہ ہسپتال سے ہر سال ہزاروں مریض فیضیاب ہوتے ہیں جن کا علاج کرنے کیلئے ماہر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ موجود ہے۔
اس وقت ہسپتال کے بڑے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر ایم اسلم (پیڈریاٹکس)، ڈاکٹر محمد بخش (آرتھوپیڈک سرجن) ، ڈاکٹر ملیحہ صدف (پلمانولوجسٹ) ، ڈاکٹر ثمین پرویز (ڈینٹسٹ) اور ڈاکٹر تنظیم (پیڈریاٹکس) شامل ہیں۔ یہاں ہر روز اسپیشلسٹ او پی ڈی بھی ہوتی ہے جس میں 50 سے زیادہ مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹرس مریضوں کو دیکھتے ہیں جبکہ ایمرجنسی وارڈ میں بھی مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں مختلف نوعیت کے آئی سی یو، آپریشن تھیٹرز بھی موجود ہیں جبکہ بچوں اور بڑوں کے مختلف امراض کے علاج کے خصوصی وارڈز بھی موجود ہیں۔
کراچی میں بہادر یار جنگ کے نام پر بہادرآباد بسایا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں ناظم آباد ایک تہذیبی مرکز کے طور پر ابھرا اور اس کے اطراف میں کئی کالونیاں بسائی گئیں جن میں سے ایک نام عثمانیہ کالونی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے مرادآباد والوں نے آباد کیا تھا جبکہ اسی کالونی کے وسط میں گورنمنٹ عثمانیہ گرلز کالج بھی اسی دور کی نشانی ہے۔ 1972ء میں اس کالج میں پڑھائی شروع ہوگئی تھی۔ 1970ء کی دہائی تک کراچی میں دہلی، لکھنؤ اور حیدرآباد دکن جیسے علاقوں کے تہذیبی اور ثقافتی آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ نہ صرف کراچی کی وسعت میں اضافہ ہوا۔ 1950ء کے دہے میں ہی حیدرآباد کالونی بسائی گئی تھی جہاں حیدرآباد سے آنے والوں کو آباد کیا گیا۔ کسی زمانے میں یہاں مکان ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں گنجان آباد فلیٹ بن چکے ہیں۔ حیدرآباد کالونی کی ایک وجہ شہرت جہاں عثمانیہ ہاسپٹل ہے ، وہیں یہ کالونی حیدرآبادی پکوانوں کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہے۔ مختلف حیدرآبادی پکوانوں کی وجہ سے یہاں کی گلیاں آم گلی، میٹھی گلی، کھٹی گلی اور اچار گلی کے نام سے مشہور ہوگئی ہیں۔ حیدرآبادی چوڑیاں، زیورات اور حیدرآبادی لباس خواتین میں مقبول ہیں۔ کراچی شہر کو ہم اس لحاظ سے منفرد شہر قرار دے سکتے ہیں کہ اسے برصغیر کے مختلف علاقوں کے لوگوں نے اپنا مسکن بنایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر کی تہذیبوں اور زبانوں کا ملاپ اس شہر میں ہوا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔