کراچی کی خاتون کو بائیک لائسنس جاری کرنے سے انکار

,

   

کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کیا قانون خواتین کو بائیک چلانے کی اجازت نہیں دیتا؟کراچی کی ایک ورکنگ وومن نے یہ سوال سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا ہے اور ساتھ میں انہوں نے لائسنس برانچ میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقع کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔شیریں فیروز پور والا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انہوں نے موٹر بائیک چلانے کی ایک ماہ تربیت حاصل کی جس کے بعد وہ گزشتہ جمعے کو لائسنس کے حصول کے لیے کلفٹن برانچ گئیں تھیں۔ان کے مطابق ’کاؤنٹر پر ڈیٹا انٹری کے لیے موجود اہلکار کو میں نے یاد دہانی کے لیے بتایا کہ مجھے موٹربائیک اور گاڑی دونوں کا لائسنس درکار ہے، تو اس نے جواب دیا کہ آپ عورت ہیں گاڑی چلائیں، ہم عورتوں کو بائیک کا لائسنس نہیں دیتے۔ یہ سن کر میں پریشان ہوگئی اور وہاں سے باہر نکل گئی۔‘شیریں کے مطابق انھوں نے شہر کی دوسری لائسنس برانچ ناظم آباد میں ایک جان پہچان والے سے رابطہ کیا جس نے تصدیق کی کہ وہ خواتین کو بائیک کا لائسنس نہیں دیتے ہیں، ’اگر کوئی لڑکی اپنے والدین کے ساتھ آتی ہے اور والدین بحث مباحثہ کریں تو اس کو مجبوری میں لائسنس دیا جاتا ہے ورنہ زیادہ تر لوٹا دیا جاتا ہے۔‘شیریں کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح کر دیا جائے کہ خواتین بائیک نہیں چلاسکتیں، یہ قانون ہے وہ اپنی مرضی نہیں چلاسکتیں، اگر لائسنس نہیں ہوگا تو ہم کیسے سڑکوں پر بائیک چلائیں گی۔‘شیریں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسی، رکشہ وغیرہ پر کافی اخراجات ہوجاتے ہیں اسی لیے انہوں نے بائیک چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے اس کی تربیت حاصل کی جس میں والدین اور دوستوں نے ان کی ہمت افزائی کی اور وہ لائسنس لینے گئیں تھیں۔شیریں فیروز پور والا نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ان کے ٹرانسپورٹ پر یومیہ 600 روپے کا خرچہ ہوتا ہے اور اگر رش زیادہ ہو تو یہ خرچہ 900 روپے تک چلا جاتا ہے۔