کرناٹک حکومت ‘ ذمہ داریاں و چیالنجس

   

جو بات ہے کھل کر وہ سنادیتے ہیں سب کو
ہم لوگ تو درپردہ شکایت نہیں کرتے
ایک ہفتہ کی گہماگہمی اور زبردست سرگرمیوں کے بعد بالآخر کرناٹک میں کانگریس کی حکومت نے حلف لے لیا ۔سدا رامیا نے چیف منسٹرا ور ڈی کے شیوکمار نے ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا ہے ۔ ان کے ساتھ دیگر چند وزراء کو بھی حلف دلایا گیا ہے ۔ ریاست میں کانگریس کی شاندار کامیابی کے بعد چیف منسٹر کے انتخاب کیلئے جو رسہ کشی شروع ہوئی تھی وہ بالآخر گذشتہ دو دن قبل اختتام کو پہونچی جب کانگریس نے یہ ذمہ داری سدارامیا کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ڈی کے شیوکمار کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا ہے اور ان کو پردیش کانگریس کی صدارت پر برقرار رکھا گیا ہے ۔ ابتداء میں چند ہی وزراء کو حلف دلایا گیا ہے اور بعد میں طویل مشاورت کے بعد کابینہ میں توسیع کی جاسکتی ہے ۔ اب جبکہ ریاست میں کانگریس نے شاندار کامیابی کے بعد اقتدار سنبھال لیا ہے اس کے سامنے اقتدار کے مزے لوٹنے سے زیادہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے سامنے ریاست کو فرقہ وارانہ ذہنیت سے پاک کرنے کا چیالنج ہے ۔ ریاستی حکومت کے سامنے ایک طویل سفر ہے اور اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست کے عوام سے کئے گئے تمام وعدوں کی تکمیل کرے ۔ جو بھی عوام نے کانگریس پارٹی سے امیدیں وابستہ کی ہیں ان کو پورا کیا جائے ۔ عوام کو ایک کلین اور صاف حکومت فراہم کی جائے ۔ کرپشن کے خاتمہ پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کانگریس کا ایک بڑا انتخابی مسئلہ کرپشن ہی تھا جس کے ذریعہ بی جے پی کو گھیرا گیا تھا اور ریاست کے عوام نے بھی کرپشن سے بیزار ہو کر بی جے پی کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ کانگریس پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کئے تھے ان کی تکمیل بھی ضروری ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے ابتدائی چند گھنٹوں ہی میں ان کی تکمیل کیلئے پہل کی ہے تاہم ان پر من و عن عمل آوری اور عوام تک اس کے ثمرات پہونچانا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس پر خاص توجہ کے ساتھ اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ عوام کی امیدیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ جو وعدے کئے گئے تھے ان کے علاوہ بھی حکومت کو عوام کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس پر پیشرفت کی جانی چاہئے ۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ریاست کرناٹک کے ماحول کو پراگندہ کردیا گیا تھا ۔ وہاں نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ حجاب کے مسئلہ کو طوالت دیتے ہوئے مسلم طالبات اور خاتون اساتذہ کو پریشان کیا گیا ۔ ان کی تعلیم کو متاثر کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ۔ حلال گوشت کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے سماج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ٹیپو سلطان کو نفرت کا ذریعہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی ۔ سماج میں ہم آہنگی کو متاثر کرنے کیلئے فرقہ پرست عناصر نے جو کچھ بن پڑسکتا تھا وہ کیا ہے ۔ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بحال کرنے کی ذمہ داری کانگریس حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ چیف منسٹر سدارامیا کا جو پاک صاف اور سکیولر امیج ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہئے ۔ فرقہ پرست عناصر کی سرکوبی کیلئے بھی اقدامات کرنے ہونگے ۔ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد اگر ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو بخشا نہیں جانا چاہئے ۔ ان کے خلاف سختی سے کارروائی کرتے ہوئے ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں جو زہر انڈیلا گیا ہے اس کے اثر کو زائد کرنا ریاستی حکومت کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حکومت کا امتحان ہوگا ۔
نئی حکومت کی ذمہ داریوں میں سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا بھی شامل ہے ۔ عوام جو مسائل سے دوچار ہیں ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے ۔ جو وعدے کئے گئے تھے ان پر فوری عمل کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچائی جانی چاہئے ۔ عوامی مفاد کے مطابق حکومت چلائی جانی چاہئے ۔ کرپشن کے خاتمہ کیلئے جامع حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔ ریاست کو آئی ٹی کے شعبہ میں جو سبقت حاصل تھی اس کو بحال کیا جانا چاہئے ۔ ملازمتوں اور روزگار کی فراہمی کیلئے منصوبے تیار کئے جانے چاہئیں اور ایک ایسی حکومت فراہم کی جانی چاہئے جس پر ریاست کے عوام بھروسہ کرسکیں اور انہیں اطمینان ہو کہ حکومت ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پابند ہے ۔ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہئے ۔
تلنگانہ میں بدلتا سیاسی منظر
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے اثرات اس کی پڑوسی ریاستوں پر بھی مرتب ہونے کے امکان دکھائی دے رہے ہیں ۔ تلنگانہ کو بھی اس سے استثنی نہیں ہے ۔ تلنگانہ بھر میں حالانکہ کرناٹک نتائج پر تبصرے بہت شدت سے جاری ہیں اور کانگریس کیڈر میں بھی حوصلے بلند ہوتے نظر آ رہے ہیں لیکن اس کے راست اثرات کس حد تک مرتب ہونگے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ کانگریس کی پڑوسی ریاست میں کامیابی سے ضرور ریاست کے کیڈر پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور برسر اقتدار بی آر ایس کی سیاسی فکر میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ بی جے پی کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ کانگریس کے بڑھتے حوصلوں اور بی جے پی کے داخلی اختلافات نے اسے ایک بار پھر سے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ بی جے پی کے تمام قائدین ایک رائے نہیں ہیں اور یہ وہ صورتحال ہے جس کا اکثر و بیشتر کانگریس شکار رہا کرتی تھی ۔ ریاستی کانگریس میں اب بھی اختلافات ہیں لیکن ان کو دور کرنے کی سمت پہل ہو رہی ہے ۔ کچھ قائدین جو بی آر ایس اور بی جے پی سے ناراض ہیں ان کی کانگریس میں شمولیت کا امکان ہے ۔ ابھی سے کچھ قائدین کی بیان بازیاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کی سیاست بھی کرناٹک نتائج سے ضرور متاثر ہے لیکن یہ اثرات کس حد تک ہونگے اور اس کو کس حد تک آگے بڑھایا جاسکے گا یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔