کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی مہم اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے مابین یہاں سخت مقابلہ کا تاثر دیا جا رہا ہے جبکہ کانگریس کا دعوی ہے کہ وہ ریاست میں 140 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اقتدار پر واپسی کر رہی ہے ۔ بی جے پی کیلئے مشکل حالات کا سبھی گوشوں کو اعتراف ہے ۔ کئی طرح کے انتخابی سروے میں بھی کانگریس کی سبقت اور کامیابی کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔ بی جے پی کے ریاستی قائدین کیلئے انتخابات میں مہم چلاتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا ۔ ریاستی حکومت پر 40 فیصد کرپشن کے جو الزامات ہیں ان کی وجہ سے عوام میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی ذات پات کی سیاست میں بھی الجھ کر رہ گئی ہے ۔ اس نے لنگایت برادری کے دو اہم قائدین کو ٹکٹ سے محروم کردیا ہے جبکہ یہ دونوں ہی کانگریس میںشامل ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کی شمولیت سے کانگریس کی اقتدار پر واپسی کے امکانات اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ کانگریس کے ریاستی قائدین اپنی مہم کو زورو شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کانگریس نے کرناٹک کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے اس کے مطابق مرکزی قائدین کو زیادہ اجاگر کرنے اور مرکزی موضوعات پر مباحث کرنے کی بجائے ریاستی اور مقامی مسائل پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو عوام میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ کرپشن کے الزامات کوم سلسل دہرایا جا رہا ہے ۔ کانگریس کی حکومت بننے پر ریاست کے عوام سے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ انہیں کئی طرح کی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ مقامی اور عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات کے اندیشے ظاہر کر رہے ہیں۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا ریاست کو مودی کے آشیرواد سے محروم ہونے کا خوف دلا رہے ہیں۔خود وزیر اعظم بھی ریاست کے عوام پر توجہ دینے کی بجائے کانگریس کونشانہ بنا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے قدرے تاخیر سے کرناٹک کی انتخابی مہم میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ وہ آخری مراحل میں رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی اور اس کے امیدواروں کو بھی اب صرف وزیر اعظم سے امید رہ گئی ہے ۔ بی جے پی نے دعوی کیا تھا کہ ریاستی چیف منسٹر کی قیادت میں انتابات لڑے جائیں گے لیکن اب وزیر اعظم مودی کے چہرے اور ان کی شخصیت پرووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے دوروں کے موقع پر ریاست کے عوام سے متعلق مسائل پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے صرف کانگریس کو نشانہ بنانے اور اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس انہیں مسلسل تنقیدوں اور بیجا الزامات کا نشانہ بناتی رہی ہے ۔ وزیر اعظم اس طرح سے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کوشش میں انہوں نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ساورکر کا بھی تدکرہ کیا اور کہا کہ کانگریس نے ان دونوں کی بھی مذمت کی تھی ۔ یہ بیانات ریاست کے عوام اور ان کو درپیش مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ ریاستی حکومت پر چالیس فیصد کمیشن حاصل کرنے کے الزامات کی وزیر اعظم کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر داخلہ کی جانب سے فسادات کا اندیشہ ظاہر کئے جانے کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ انہیں یہ بتانا چاہئے کہ وہ کرناٹک میں کامیابی پر ہی نہیں بلکہ ناکامی پر بھی ریاست کی ترقی کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے ۔
بی جے پی اور اس کی مرکزی قیادت کو بھی یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ وہ ریاست میں انتخابی لڑائی میں پچھڑتی جا رہی ہے۔ ریاست کے عوام شائد اس بار اس کے جھانسے میں نہ آئیں۔ اسی لئے اب مختلف حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ریاست اور ریاست کے مسائل پر کوئی بھی قائد تبصرہ کرنے یا کوئی اپنی سابقہ حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ صرف کانگریس کو نشانہ بنانے یا پھر ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ منفی انتخابی حکمت عملی ہے ۔ اس سے بی جے پی کو گریز کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے چاہئیں۔