کرناٹک ‘ میڈیا کی گمراہ کن مہم

   

لڑکھڑاتے ہیں منزل پہ آکے قدم
مجھ کو ایسے میں میرا پتہ دیجئے
سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل کرناٹک انتخابات کی مہم اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتخابی مہم اب بتدریج اپنے اختتامی مراحل کی سمت آگے بڑھ رہی ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جانب سے بھی اپنی مہم میں تیزی اور شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ عوام کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل کی جائے ۔ ان کے ووٹ حاصل کئے جائیں اور اقتدار پر قبضہ کیا جائے ۔ بی جے پی اور کانگریس میں اقتدار کی رسہ کشی ہے تو جنتادل سکیولر کی جانب سے بادشاہ گر کا موقف حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران میڈیا کی جو ذمہ داری ہوتی ہے وہ حقیقی عوامی مسائل کو پیش کرنے کی ہوتی ہے ۔ حکومت کی ناکامیوںکواور سابقہ وعدوں کی عدم تکمیل پر توجہ دلانے کی ہوتی ہے ۔ عوام کو انتخابات کی اہمیت اور ان کی ووٹ کی افادیت کو سمجھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ تاہم ہمارے ملک میں میڈیا اب میڈیا نہیں رہ گیا بلکہ صرف تلوے چاٹو اینکرس چند ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر حکومت کی واہ واہی اور اس کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے اور عوام کے ذہنوں میں ایک مخصوص سوچ و فکر مسلط کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس کوشش میں ہر اینکر دوسرے اینکر پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جو میڈیا ادارے اب تک غیرجانبدار تھے وہ بھی اب اپنی روش کو غیرمحسوس طریقے سے بتدریج بدل رہے ہیں۔ یہ ان کے مالکانہ حقوق کی تبدیلی کا نتیجہ ہے ۔ کرناٹک میں بھی یہی کھیل میڈیا نے شروع کردیا ہے ۔ ریاست میں کس کو اقتدار حاصل ہوگا اور کس کو عوام مسترد کردیں گے یہ رائے دہی اور رائے شماری کے بعد ہی واضح ہوگا ۔ تاہم عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کیلئے اور غیر جانبدار ووٹر کی ذہن سازی کرنے کیلئے میڈیا نے اپنی گمراہ کن مہم شروع کردی ہے ۔ میڈیا اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ عوام کی سوچ و فکر پر غالب آنے اور انہیں ایک مخصوص سوچ کی سمت ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میڈیا اپنے پروگرام اور تجزیوں کے ذریعہ عوام کے ووٹ پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا منظم انداز میں آغاز کرچکا ہے ۔
کرناٹک میںکرپشن ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ مہنگائی سے سارے ملک کے عوام کی طرح کرناٹک کے عوام بھی متاثر ہیں اور وہ بھی اس سے نجات چاہتے ہیں۔ عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے کئی مسائل کو ذہن میںرکھتے ہیں۔ وہ کافی غور و فکر کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں ریاست میں جو عوامی موڈ ہے اس سے برسر اقتدار جماعت اور اس کے حواریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ بی جے پی کے قائدین اب نزاعی مسائل کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے مذہبی منافرت کو ہوا دینے کا موقع مل جائے ۔ عوام کی توجہ ان کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے ہٹ جائے ۔ اس کے علاوہ یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست میںبی جے پی ہی عوام کی پہلی پسند ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ریاست میںکرپشن اور مہنگائی کوئی بڑے مسائل نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی حکومت پر کرپشن کے بے شمار الزامات عائد ہوئے ہیں۔ یہ عوام میںموضوع بحث بھی ہیں۔ لوگ کرپشن سے عاجز آچکے ہیں۔ مذہبی ادارے بھی کرپشن کے الزامات عائد کرنے لگے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے الگ لوٹ کھسوٹ کی جا رہی ہے ۔ مہنگائی نے ہر گھر کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ گھریلو بجٹ تہس نہس ہوگیا ہے ۔ عوام کی جیبوں پر مسلسل ڈاکہ پڑ رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ مہنگائی ریاست میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور نہ کرپشن کی عوام کو فکر لاحق ہے ۔
اپنے نام نہاد سروے جاری کرتے ہوئے بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جو ووٹرس لمحہ آخر میں اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کرتے ہیں ان پرا ثر انداز ہونے اور ان کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس طرح سے میڈیا بھی انتخابات میں ایک فریق بن کر پیش ہو رہا ہے جو میڈیا کی اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے یکسر مغائر ہے اور اس کی پیشہ ورانہ دیانت پر سوال پیدا کرتاہے۔ کرناٹک کے عوام اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ وہ جسے چاہیں اپنے ووٹ کا حقدار سمجھیں۔ انہیں تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریاست اور ریاست کے عوام کے مفادات کے حق میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔