کرناٹک میں نفرت انگیز تقاریر کی سیاست پر پابندی

   

رام پنیانی
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لئے اپنے انتخابی منشور میں کانگریس نے مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں ملوث تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ منشور میں کانگریس نے کہا کہ وہ نفرت پھیلانے والی تنظیموں پر پابندی کے لئے پابند عہد ہے۔ اس نے مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (بی ایف آئی) پر پابندی کے حوالے سے بجرنگ دل کا تقابل پی ایف آئی سے کیا۔ جہاں تک بجرنگ دل کا سوال ہے وہ وشواہندو پریشد کی ایک شاخ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی ملحقہ تنظیم ہے۔ بی جے پی بھی اسی آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے۔
جیسے ہی کانگریس نے نفرت پھیلانے والی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیا۔ بی جے پی نے اسے بھی ایک مسئلہ بنا دیا اور پھر بی جے پی نے انتخابی مہم کے آحری دنوں میں اسے ایک بہت بڑے انتخابی مسئلہ میں تبدیل کردیا۔ اس طرح کانگریس کے انتخابی منشور نے بی جے پی کو اپنے پسندیدہ انتخابی موضوع کو اچھالنے کا موقع فراہم کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی قائدین نے کہنا شروع کردیا کہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بجرنگ دل نہیں بلکہ بجرنگ بلی پر پابندی عائد کرنے کی بات کی ۔ بی جے پی قائدین نے بجرنگ دل کی جگہ بجرنگ بلی کا نام لینا شروع کردیا۔ یہ وہ تنظیم ہے جو ہندو دیوتا ہنومان سے موسوم ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی نے دو دعوے کئے جنہیں ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پہلا دعویٰ تو یہ کیا کہ کانگریس ہنومان جی کو لاک اپ میں بند کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے رام جی کو لاک اپ میں بند کیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی مسلسل ہندو دیوتا رام کا نام لیتی رہی ہے اور ایودھیا میں تعمیر ہو رہی رام مندر کا سہرا اپنے سر باندھنے کی بھرپور کوشش کی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جواب میں کانگریس نے ہنومان جی کا بجرنگ دل سے تقابل پر تنقید کرتے ہوئے اسے ہنومان جی کی توہین قرار دیا۔ کانگریس قائدین کا کہنا تھا کہ بی جے پی بجرنگ دل کا ہنومان جی سے تقابل کرتے ہوئے ہندوؤں کے جذبات مجروح کررہی ہے۔ کانگریس نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی نے سری رام سینا پر پابندی عائد کی۔ یہ گوا کی ایک تنظیم ہے جس نے رام جی کے نام پر اپنا نام رکھا ایسے میں اسے بجرنگ دل پر پابندی کے وعدوں پر رونے دھونے اور چیخ و پکار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہنومان جی عقیدت کی علامت ہے اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ شاعر اور سنت تلسی داس نے ہنومان چالیسہ تحریر کیا اور ہندوستان میں یہ کافی مقبول ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ آیا بجرنگ دل خود کو بجرنگ بلی کے ہم معنی بناسکتی ہے اور کسی بھی طرح خود کو ایک طاقتور ہنومان کی طرح ڈھال سکتی ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ بی جے پی کے جلسوں میں اکثر جئے بجرنگ بلی یا ہنومان جی کی تعریف و ستائش میں نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن ان نعروں میں بہت ہی کم عقیدت و محبت ہوتی ہے۔ حد سے زیادہ جارحانہ انداز میں نعرے لگائے جاتے ہیں جس کا مقصد ہندوستان کے دو مذہبی گروہوں کو تقسیم کرنا ایک دوسرے سے دور کرنا اور ہندو ووٹوں کو متحد کرنا ہوتا ہے۔ چلئے بی جے پی کی اس بارے میں نیت کیا ہے؟ ارادے کیا ہیں؟ اس سے قطع نظر اہم سوال یہ ہیکہ جن لوگوں نے دستور پر حلف لیا ہے آیا وہ عوامی جلسوں میں دیوی دیوتاؤں کے نعرے لگاسکتے ہیں؟ اور کیوں وہ یہ نعرے لگاتی ہے؟ جب دوسرے مذاہب کے ماننے والے یا سماجی و سیاسی جہدکار اور سیاستداں سیاسی تناظر میں اللہ اکبر یا اللہ عظیم ہے جیسے نعرہ لگاتے ہیں تو کیا بی جے پی اس کی مخالفت نہیں کرتی؟
یاد کیجئے بجرنگ دل، وشواہندو پریشد کی ایک شاخ ہے اور 1980 میں اسے اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب اس نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا پرزور انداز میں مطالبہ کیا۔ اس کا قیام ہی تخریبی مہم میں نوجوانوں کو شامل کرنے کے لئے عمل میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ اس نے خود ساختہ کارسیوا یا مذہبی خدمت کے لئے نوجوانوں کی بھرتی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور وہ کارسیوا عملاً 1527 کی تعمیر کردہ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ 1527 میں ہندوستان پر مغل حکمراں بابر کی حکمرانی تھی جہاں تک شہادت بابری مسجد کا سوال ہے وہ واقعہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور اس میں بجرنگ کا تشدد بھی نظر آتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سال 2006 تا 2008 بجرنگ دل کارکنوں کے پرتشدد کارروائیوں کے بے شمار واقعات منظر عام پر آئے۔ مثال کے طور پر نریش اور ہیمانشو پاسے (ایک وی ایچ پی رکن) بم بناتے ہوئے اتفاقی طور پر ان ہی بم دھماکوں کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔ اس واقعہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور ان کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی خاطر مقام واقعہ سے کچھ دور ایک کرتا پاجامہ اور نقلی داڑھی رکھدی گئی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ دھماکہ کا ذمہ دار کسی مسلمان کو ٹھہرایا جائے اور اس کے بہانے تمام مسلم برادری کو بدنام کیا جائے۔ دوسرے ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمیں ملوث تھیں اور اکثر اس قسم کے واقعات میں بجرنگ دل کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے اور بجرنگ دل نے ہمیشہ کسی بھی واقعہ میں اپنے رول کی تردید کی۔ اسی طرح جنوری 2019 میں بجرنگ دل کے ایک اور ورکر یوگیش راج کو بلند شہر میں انسپکٹر سبودھ کمار کے قتل پر گرفتار کیا گیا۔ اترپردیش میں پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ علاقہ میں گاوکشی کے الزامات عائد کئے گئے تھے جس کے بعد تشدد پھوٹ پڑا اور انسپکٹر سبودھ کمار ہجوم کو تشدد سے روکنے کی کوشش کررہے تھے۔ حالیہ عرصہ کے دوران بہار شریف میں رام نومی کے دوران پھوٹ پڑے تشدد میں بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے کندن کمار کو تشدد و بے چینی برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
دوسری طرف بی جے پی حکومت نے پی ایف آئی پر نفرت پھیلانے تشدد برپا کرنے جیسی سرگرمیوں کے بہانے پابندی عائد کردی۔ قبل ازیں کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے آر ایس ایس کا تقابل مصر کی اخوان المسلمین سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس ہندوستان کی نوعیت اس کی گنگا جمنی تہذیب بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔ ملک میں اس کے سواء کوئی اور تنظیم نہیں جو ہندوستان کے اہم اداروں پر قبضہ کی خواہاں ہے۔ ان پر کنٹرول چاہتی ہے۔ اس کا یہ آئیڈیا عرب دنیا میں موجود اخوان المسلمین کے نظریہ کی طرح ہی ہے اور وہ آئیڈیا یہ ہیکہ تمام اداروں پر ایک ہی نظریہ تھوپا جائے اور وہ نظریہ دوسرے تمام نظریات کو کچل دے۔ اخوان پر مصری صدر انورسادات کے قتل کے بعد پابندی عائد کی گئی جبکہ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی۔ دونوں تنظیموں میں ایک اور دلچسپ مماثلت یہ ہیکہ ان میں خاتون ارکان شامل نہیں کی جاتی۔ ملک میں پچھلے چند دنوں سے مذہبی جنون پسندی اپنے انتہا کو پہنچ گئی ہے اور مذہب کے نام پر سیاست کی جاری ہے۔ خود سیکولر جماعتیں قدامت پسندوں پر تنقید کرنے سے گھبرا رہی ہیں۔