کرناٹک ہاتھوں سے نکلا توبی جے پی کی مشکلات بڑھ جائیں گی

   

ظفر آغا
چناؤ تو چناؤ ہوتے ہیں۔ جب تک ووٹوں کی گنتی ختم نہ ہو جائے تب تک حتمی طور پر کہنا کہ کون ہارا اور کون جیتا، ذرا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی چناؤ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سڑکوں اور ریلیوں کا ماحول ووٹنگ سے قبل ہی بتا دیتا ہے کہ کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے۔ حالیہ کرناٹک اسمبلی میں 10 مئی کو ہونے والا چناؤ کچھ ایسا ہی ہے۔ کرناٹک سے جو بھی خبریں آ رہی ہیں، ان سے ابھی تک یہی اشارے مل رہے ہیں کہ وہاں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے چناؤ ٹیڑھی کھیر بن چکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کنڑ زبان کے دو تین ٹی وی چینل کی پری پول سروے رپورٹ کانگریس پارٹی کو حالیہ چناؤ میں واضح اکثریت دے چکی ہیں۔ لیکن آخر ایسی کیا بات ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کے لیے مشکلیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ 2014 سے بی جے پی تقریباً ہر چناؤ ہندوتوا کارڈ پر ہی جیتتی رہی ہے۔ کرناٹک میں تو پچھلے تقریباً ایک برس سے ہندوتوا کا کھلا استعمال چل رہا تھا۔ بھلا کرناٹک میں سنگھ کی مختلف تنظیموں کی حجاب مخالفت کون بھول سکتا ہے۔ وہ ٹی وی پر حجاب پہنے مسلم طالبات کو ہندو طالب علموں کے ذریعہ دوڑانا کرناٹک ہی نہیں پورے ہندوستان کو اب بھی یاد ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آخر کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے بھی سرکاری کالجوں میں حجاب پر پابندی لگا دی اور حکومت کے اس فیصلے پر ریاستی ہائی کورٹ نے مہر بھی لگا دی۔ پھر اس فیصلے کو صادر کرنے کے لیے کالج کی جانب سے کالج کے باہر کھڑے ہو کر مسلم طالبات کے حجاب اتروائے گئے اور ٹی وی کے ذریعہ ان کی تشہیر بھی کی گئی۔
ظاہر ہے کہ یہ سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس کا مقصد چناؤ سے قبل یہ پیغام دینا تھا کہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت مسلم دشمن ہے اور وہ اس سلسلے میں عام مسلمان تو کیا مسلم عورتوں کو بھی کسی حد تک ذلیل و خوار کر سکتی ہے۔ اس کا مقصد ریاست میں چناؤ سے قبل ہندو جذبات بھڑکانا تھا۔ اس کے باوجود اگر کرناٹک میں بی جے پی کے لیے چناؤ مشکل نظر آ رہے ہیں تو یہ بی جے پی کے لیے بری خبر ہے۔ کیونکہ بی جے پی کا چناوی فارمولہ ہی مسلم منافرت ہے، اور اگر اس کا یہ فارمولہ کارگر نہیں رہتا تو پھر تو اگلے ایک سال میں بی جے پی کی چناوی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اب سے لے کر مئی 2024 تک ملک میں چناؤ کا ایک سلسلہ ہے اور یہ تمام چناؤ بی جے پی اور حزب اختلاف دونوں کے لیے بہت ہی اہم ہیں۔ کرناٹک میں چناؤ کے بعد جنوری 2024 میں چار ریاستوں میں چناؤ ہونے ہیں۔ وہ ریاستیں ہیں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ۔ ان میں سے تین ریاستوں کے بارے میں مبصرین کی یہ رائے ہے کہ ان میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ میں حالیہ کانگریس حکومت کے بارے میں عموماً یہی رائے ہے کہ وہاں وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے کاموں سے عوام خوش ہیں اور واضح امکان یہی ہے کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی اگلے چناؤ میں پھر واپسی ہو جائے۔ برابر میں مدھیہ پردیش سے بھی بی جے پی کے لیے اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں۔ یوں تو مدھیہ پردیش میں بی جے پی پچھلا چناؤ بھی ہار گئی تھی۔ آخر سندھیا کو کانگریس سے توڑ کر بی جے پی نے حکومت بنائی لیکن وہاں بی جے پی کے خلاف ماحول اس بار بھی گرم ہے اور چناؤ جیتنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ تلنگانہ میں تو وہاں کی علاقائی پارٹی ٹی آر ایس کو ہرا پانا تقریباً ناممکن ہے۔ چندر شیکھر راؤ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ہیں اور رہیں گے۔
الغرض، اگر کہیں اب سے لے کر جنوری 2024 تک بی جے پی کرناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کے اسمبلی چناؤ ہار گئی تو ملک میں بی جے پی مخالف فضا بن جائے گی۔ ظاہر ہے کہ پھر 2024 کے لوک سبھا چناؤ بھی بی جے پی کو بھاری پڑ سکتے ہیں۔ اس قسم کے نتائج حزب اختلاف کے حوصلے بلند کر دیں گے جس سے اپوزیشن اتحاد بھی ممکن ہو جائے گا۔ لیکن ان حالات میں سب سے اہم سیاسی عنصر یہ ہوگا کہ وہ ہندوتوا یعنی مسلم منافرت، جس کے سہارے بی جے پی چناؤ جیتتی رہی ہے، وہ حکمت عملی دھومل پڑ سکتی ہے۔ اور یہ بی جے پی کے لیے سب سے بری خبر ہوگی۔جیسا عرض کیا کہ یوں تو چناؤ ختم ہوتے تک کچھ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، لیکن اب یہ واضح ہے کہ ملک میں بی جے پی مخالف فضا کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!