کرناٹک ‘4 فیصد تحفظات پر کھلبلی

   

جنوبی ریاست کرناٹک میںچار فیصد تحفظات کے مسئلہ پر سیاست گرم ہونے لگی ہے ۔ ریاستی بجٹ میں حکومت کی جانب سے چار فیصد تحفظات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ تحفظات ملازمتوں یا تعلیمی شعبہ میں نہیں ہے بلکہ سرکاری کنٹراکٹس میں یہ چار فیصد تحفظات دئے گئے ہیں۔ یہ تحفظات بھی ایک کروڑ روپئے تک کے کاموں میں رہیں گے اور ان کے ذریعہ تمام اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد سرکاری کام کاج کیلئے بولیاںد اخل کرسکتے ہیں۔ چیف منسٹر کرناٹک سدا رامیا نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے ان تحفظات کا اعلان کیا تھا ۔ اسی بجٹ میں درج فہرست ذاتوں اور قبائل کی بہبود اور ترقی کیلئے بھی 42 ہزار کروڑروپئے فراہم کئے گئے ہیں۔ تاہم بی جے پی کی جانب سے اقلیتی برادریوں کو دئے گئے کوٹہ پر ہنگامہ آرائی کی جا رہی ہے اورا سے مسلمانوں کو خوش کرنے اور خوشامد کرنے کی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے ۔ حکومت نے یہ وضاحت بھی ہے کہ جن تحفظات کا اعلان کیا گیا ہے وہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں ہیں بلکہ تمام اقلیتی برادریوں کیلئے ہیں۔ ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر ڈی کے شیوکمار نے بھی آج واضح کردیا کہ حکومت نے جن چار فیصدتحفظات کا اعلان کیا ہے وہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ریاست کی تمام اقلیتی برادریاں ان تحفظات سے استفادہ کرنے کی اہل ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کی جانب سے ہنگامہ کیا جا رہا ہے اور اسے مسلمانوں کی خوشامد سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی فرقہ وارانہ اور متعصب ذہنیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کا دعوی ہے کہ یہ دستوری گنجائش کے مغائر فیصلہ ہے اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کی خوشامد کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ ہی اقلیتوں اور مسلمانوں سے معاندانہ رویہ رکھتی ہے اور اپنی فرقہ وارانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوںکو کسی بھی طرح کی سہولت یا راحت پہونچانے کی شدت سے مخالفت کرتی آئی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوںمیں بی جے پی حکومتوں کی جانب سے اقلیتوں کیلئے بجٹ تک ختم کیا جا رہا ہے ۔ کئی اسکیمات کو ختم کردیا گیا ہے اور جہاں کہیںاپوزیشن حکومتیں کوئی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس پھر ہنگامہ کھڑا کرتے ہوئے فرقہ پرستانہ سیاست کی جا رہی ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں جہاں مسلمانوں نے کئی صدیوں تک حکومت کی ہے ‘ مسلمانوں کی حالت زندگی کے ہر شعبہ میں انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ اس ملک میں مسلمان سیاسی ‘ معاشی ‘ تعلیمی اور سیاسی میدان میں دیگر ابنائے وطن سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ ملک میں سچر کمیٹی کی رپورٹ موجود ہے جس میںمسلمانوں کی حالت کو دیگر پسماندہ طبقات سے بھی ابتر قرار دیا گیا ہے ۔ یہ کوئی مسلمانوں کی تیار کردہ یا کسی سیاسی جماعت کی تیار کردہ رپورٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کمیٹی کی رپورٹ ہے جس نے سارے ملک کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیا تھا ۔ اس رپورٹ کی پیشکشی کے بعد مرکزی حکومتوں کو اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کی سیاسی ‘ سماجی ‘ تعلیمی اور معاشی حالت کو سدھارنے کیلئے سنجیدگی سے منصوبے تیار کرتیں اورا ن پر عمل آوری کرتیں۔ مسلمانوں کی بہتری کیلئے بجٹ میں خصوصی طور پر رقومات فراہم کرنے کی ضرورت تھی تاہم ایسا کچھ نہیں کیا گیا ۔ مرکز کی مودی حکومت ملک میں سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ ضرور دیتی ہے لیکن یہ نعرہ بھی محض ایک جملہ ہی ثابت ہو رہا ہے ۔ اگر سب کا وکاس کی بات ہے تو پھر مرکزی بجٹ میں اقلیتوں کیلئے خصوصی رقومات فراہم کی جانی چاہئیں تھیں۔ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برخلاف اقلیتوں کیلئے اسکالرشپس کو تک ختم کیا جا رہا ہے ۔ ان کی رقومات میں لگاتار کٹوتی کرتے ہوئے بجٹ کو کم سے کم کیا جا رہا ہے اور مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کیلئے بجٹ فراہم کرنے کی شدت کے ساتھ مخالفت سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔
کرناٹک میں سدارامیا کی زیر قیادت کانگریس حکومت مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کچھ پہل اگرکر رہی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ حالانکہ یہ اقدامات بھی مسلمانوں کی حالت کو سدھارنے کیلئے کافی نہیں ہیں لیکن کچھ پہل ضرور ہو رہی ہے ۔ ایسے میں مثبت اور تعمیری تجاویز پیش کرتے ہوئے ان اقدامات کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ بجٹ کو مزید بڑھانے پر زور دیا جانا چاہئے ۔ اس کی بجائے اسے مسلمانوں کی خوشامد قرار دیتے ہوئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے ۔ جس طرح دیگر طبقات کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کیلئے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے اوراس کی مخالفت کرنے والے اپنی بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ انہیں اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
از سر نو حد بندی اور جنوبی ریاستوں کا اجلاس
مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمانی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کی تجویز پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ جنوبی ریاستوں کو اندیشے ہیں کہ اس حد بندی میں جنوبی ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی مزید گھٹ جائے گی ۔ حالانکہ مرکز نے ابھی اس سلسلہ میں کوئی واضح پیام نہیں دیا ہے لیکن جنوبی ریاستیں اپنے مفادات اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے مسئلہ پر فکرمند ہیں۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر ایم کے اسٹالن اس مسئلہ پر سب سے زیادہ سرگرم ہیں اور انہوں نے جنوبی ریاستوں کے چیف منسٹروں کا ایک اجلاس چینائی میں طلب کیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی ریاستیں اس مسئلہ پر پوری طرح سے متحد رہیں۔ مستحکم انداز میں مرکز کو تجاویز پیش کریں اور اپنی اپنی ریاستوں کے ساتھ سارے جنوبی ہند کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے ڈٹ جائیں۔ جنوب کی پانچوں ریاستوں میں اگر اس مسئلہ پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو مرکزی حکومت کوئی یکطرفہ فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ خاص طور پر اس مسئلہ پر آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو بھی حرکت میں آنا چاہئے ۔ سیاسی اتحاد سے قطع نظر ریاست کے مفادات کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔