زندگی پھر زندگی ہے بزم جاناں ہے تو کیا
عشق کو اندیشہ سوز و زیاں ہونا ہی تھا
کروڑہا ملازمتوں کا نقصان
ملک میں گذشتہ کئی برسوں سے ملازمتیں فراہم کرنے کے رجحان میں مسلسل گراوٹ ہی آتی جا رہی ہے ۔ کئی صنعتوں اور اداروں کی جانب سے مسلسل ملازمین کی تخفیف کرتے ہوئے کئی ملازمتوں کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ حد تویہ ہے کہ سرکاری اداروں میں بھی ملازمتوں کو کم سے کم کرنے کی پالیسی ہی اختیار کی گئی ہے ۔ وزارت فینانس کی جانب سے مختلف وزارتوں کو یہ ہدایات جاری کرنے کی بھی اطلاع ہے کہ وہ نئی ملازمتوں کی فراہمی سے گریز کریں جس کیلئے مرکز کے پاس فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مرکزی اداروں کو مسلسل بند کرنے اور انہیں خانگی شعبہ کے حوالے کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ۔ کئی نفع بخش اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والی یونٹوںا ور کمپنیوں کو فروخت کردیا گیا ہے یا پھر انہیں آئندہ چند مہینوں میں فروخت کرنے کا منصوبہ ہے ۔ یہی حال ریاستوں کا بھی ہے ۔ملک کی کئی ریاستوں میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا ہے ۔ جہاں تک مرکز کا سوال ہے مودی حکومت تو سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کے وعدہ پر 2014 میں اقتدار پر آئی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت نے کروڑوں روزگاروں کو ختم کردیا ہے ۔ نوجوانوں کو جو خواب دکھائے گئے تھے انہیں روزگار کی بجائے پکوڑے تلنے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ رہی سہی کسر کورونا اور لاک ڈاون نے پوری کردی ہے ۔ جو غیر منظم شعبہ میں یومیہ اجرتوں پر ملازمت کرتے تھے اور نوکریوں سے وابستہ تھے وہ بھی بیروزگار ہوتے چلے گئے ہیں۔ جو تازہ ترین اعداد و شمار سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ سنٹر کے جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں ملک بھر میں دیڑ کروڑ افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اور اس کے اقدامات سے ملک کی معیشت مستحکم ہونے کی بجائے مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار بھی منفی 7.3 فیصد تک چلی گئی ہے ۔ اب ملازمتوں میں گراوٹ کے جو اعداد و شمار ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔
لاک ڈاون اور دیگر عوامل کی وجہ سے زیادہ اثر شہری علاقوں پر مرتب ہوتا نظر آیا ہے کیونکہ شہری علاقوں میں بیروزگاری کی شرح دیہی علاقوں کی بہ نسبت زیادہ رہی ہے ۔ شہری علاقوں میں زیادہ ملازمتوں کا نقصان ہوا ہے ۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ حکومت کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ کوئی میکانزم ہے ۔ نوجوانوںکو روزگار فراہم کرنے کیلئے کوئی جامع پروگرام نہیں ہے اور صرف سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنے پر توجہ ہے جس کے نتیجہ میں روزگار کی شرح بڑھنے کی بجائے گرتی جا رہی ہے ۔ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے کی بجائے ملازمتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ کوئی ایسا میکانزم حکومت کے پاس موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ ملازمتوں میں استحکام پیدا کیا جاسکے ۔ حکومت صرف کارپوریٹس کی مدد کرنے میں مصروف ہے جبکہ نئی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کیلئے کوئی خاص فنڈز فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ کثیر تعداد میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی کمپنیوں کیلئے حکومت کے پاس کوئی خاص منصوبہ یا امدادی پروگرام نہیں ہے ۔ حکومت اگر کچھ رعایتیں دیتی ہے تو صرف مٹھی بھر اور پسندیدہ کارپوریٹس کو دی جاتی ہیں۔اگر کسی کے قرض معاف کئے جاتے ہیں تو وہ بھی صرف کارپوریٹس کے ہیں۔ یہ ایسے کارپوریٹ ادارے ہیں جن کے پاس ملازمتیں فراہم کرنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف سرکاری خزانہ پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔
ملک کی معاشی صورتحال پہلے ہی سے انتہائی ابتر ہے ۔ جس دور میں ملک میں 7تا8 فیصد شرح ترقی درج کی جاتی رہی تھی اس وقت بی جے پی نے ملک کا اقتدار سنبھالا اور اگر اسی رفتار کو برقرار رکھا جاتا تب بھی ہماری معیشت آگے بڑھتی اور روزگار اور ملازمتوں کا زیادہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ تاہم بی جے پی حکومت نے عوامی موڈ کو سمجھتے ہوئے کام کرنے کی بجائے اپنے انداز میں کام کرنا شروع کیا ۔ اسے صرف چند ایک کارپوریٹس ہی نظر آتے ہیں اور سارا کام کاروبار انہیں کے سپرد کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے عوام کے روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں حکومت انہیں بچانے میں بھی دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری خواب غفلت سے بیدار ہو اور ان کروڑوں لوگوں کی مدد کیلئے آگے آئے جو روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ملک کے عوام کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔
