بی جے پی ہمیشہ ہی کرپشن کے خلاف جدوجہد کے دعوے کرتی ہے ۔ وہ کرپشن کے الزامات پر دوسروں کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے نہیںچوکتی ۔ ہر جماعت کو جو اس کے ساتھ نہیں آتی کرپشن کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین خود دودھ کے دھلے ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں پر بدعنوانیوںاور کرپشن میں ملوث رہنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ کئی قائدین اور جماعتوں کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ خوفزدہ کیا جاتا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا جاتا ہے ۔ پھر جب ضرورت پڑتی ہے انہیں اپنی صفوں میںشامل کرلیا جاتا ہے یا حکومت میں حصہ داری تک دی جاتی ہے اور پھر کرپشن اور اس کے الزامات کہیں برفدان کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں بی جے پی نے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپوزیشن پر لگام کسنے کیلئے استعمال کیا ہے ۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس قائدین سے لے کر موجودہ چیف منسٹر آسام تک ۔ پھر تلنگانہ میں بی آر ایس قائدین سے لے کر مہاراشٹرا میں این سی پی کے قائدین تک اس کی مثالیں موجود ہیں۔ کئی قائدین جو بی جے پی میں شامل ہوگئے وہ دو دھ سے دھلے ہوگئے اور یہ تک پتہ نہیںچل رہا ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات کس مرحلہ تک پہونچی ہیں۔ جو اپوزیشن قائدین بی جے پی کے آگے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں ان کے خلاف مقدمات پر مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور کئی قائدین کو جیل بھی بھیجا گیا ہے ۔ کرپشن پر بی جے پی کے سمجھوتوں کی سب سے تازہ ترین مثال مہاراشٹرا ہے ۔ ملک کے وزیرا عظم نے محض دو دن قبل مدھیہ پردیش میں تقریر کرتے ہوئے این سی پی قائدین پر 70 ہزار کروڑ روپئے کے کرپشن کا الزام عائد کیا تھا ۔ صرف دو دن بعد ان ہی قائدین کو جن کے خلاف ای ڈی کو استعمال کیا گیا تھا مہاراشٹرا حکومت میں حصہ داری دلائی گئی اور ایک کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا جبکہ دوسرے قائدین کو وزارتیں بھی سونپ دی گئیں۔
وزیراعظم نے این سی پی کو نیچرل کرپشن پارٹی قرار دیا تھا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر دیویندر فرنویس نے اجیت پوار کو جیل بھیجنے کی بات کہی تھی ۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا ایکناتھ شنڈے نے اجیت پوار کی حکومت میں شمولیت پر خود سبکدوشی اختیار کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔ یہ سب کچھ کہیں پس منظر میں چلا گیا ہے اور بی جے پی نے کرپشن پر سب سے بڑا اورکھلے عام سمجھوتہ کرتے ہوئے نہ صرف این سی پی میںانحراف کی حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں مہاراشٹرا حکومت میں شامل کرلیا اور اجیت پوار کو ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا ۔ ان کے ساتھ آئے باغی قائدین کو بھی وزاتیں پیش کردی گئیں۔ اجیت پوار کا ساتھ دینے والے رکن پارلیمنٹ پرفل پٹیل کو بھی مرکزی کابینہ میںشامل کرنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ یہ سارا کچھ سیاسی سرکس محض بی جے پی کی اقتدار کیلئے ہوس کی خاطر ہو رہا ہے ۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر مرکز میں اقتدار سے محروم ہونا نہیںچاہتی ۔ ایک طرف جہاں اپوزیشن جماعتیں آپس میں اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کی تیاریاں کر رہی ہیں وہیں بی جے پی نے مرکزی ایجنسیوں کی مدد سے اپوزیشن کی صفوں میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ تلنگانہ میں بھی مسلسل لفظی تکرار کے بعد بی آر ایس سے در پردہ دوستی کرلی گئی حالانکہ خود چیف منسٹر کی دختر و ایم ایل سی کے کویتا کا نام دہلی شراب اسکام میں سامنے آیا تھا ۔
کرپشن سے پاک صاف رہنے کا دعوی کرنے والی بی جے پی کے خود کئی قائدین کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ہیں لیکن ان کی تحقیقات کو اس شدت سے آگے نہیں بڑھایا گیا جتنی اپوزیشن قائدین کے خلاف تیزی دکھائی گئی تھی ۔ مدھیہ پردیش میںویاپم اسکام کے باوجود شیوراج سنگھ چوہان کو چیف منسٹر برقرار رکھا گیا ۔ہیمنت بسوا سرما کے خلاف کرپشن پر کتابچہ جاری کرنے کے باوجود انہیں نہ صرف بی جے پی میں شامل کیا گیا بلکہ ان کو آسام کا چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ اس ساری صورتحال نے واضح کردیا ہے کہ بی جے پی اقتدار پر برقرار رہنے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اصولوںاور اخلاقیات کا درس صرف دوسروں کو دیتی ہے اور خود ان سب کو بالائے طاق رکھنے اور پامال کرنے سے گریز نہیں کرتی ۔