کسانوں نے مودی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں، کئی ریاستوں میں چکہ جام

,

   

l کالا قانون واپس لینے پارلیمنٹ کے خصوصی سیشن کی طلبی کا مطالبہ l حکومت تصادم کی راہ پر ، آج دوبارہ بات چیت
l احتجاج کی تائید میں ملک گیر ہڑتال کرنے ٹرانسپورٹرس کا اعلان l ضروری اشیاء کی سربراہی بند کرنے کی دھمکی

نئی دہلی : کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں شدت لاتے ہوئے مودی حکومت کی بنیادیں ہلادیں۔ اب یہ احتجاج ملک کی کئی ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاست مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے کسانوں کے علاوہ دیگر تنظیموں نے بھی اس احتجاج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور کئی اضلاع میں چکہ جام کیا جارہا ہے۔ یوپی میں سابق وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کے فرزند اجیت سنگھ نے کسانوں کی حمایت میں کہا کہ مودی حکومت کو کسانوں کے ساتھ تصادم کی راہ ترک کرنے کی چاہئے۔ مسلم لیگ نے بھی کسانوں کے احتجاج کی تائید کی ہے۔ وزیرزراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ کل 3 ڈسمبر کو حکومت کسانوں سے دوبارہ بات چیت کرے گی۔ ان کا رویہ اور لب و لہجہ ظاہر کررہا تھا کہ وہ کسانوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہتے اور ان کے مطالبات کو بھی اہمیت نہیں دیں گے۔ وزیرداخلہ امیت شاہ نے چیف منسٹر پنجاب امریندر سنگھ سے اس مسئلہ پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسانوں کے گروپ نے مرکز کی نریندر مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کسانوں کے خلاف لائے گئے کالے قانون کو واپس لینے کیلئے پارلیمنٹ کا خصوصی سیشن طلب کرے۔ تین زرعی اصلاحات قوانین کی تنسیخ کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا ضروری ہے۔ سنگھو مقام پر دہلی، ہریانہ سرحد کے قریب پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسانوں نے کہا کہ کالے قانون کو واپس لینے کے مطالبہ کو پورا نہیں کیا گیا تو ہم دہلی کی سرحدوں پر اپنی جدوجہد کو تیز کریں گے اور دہلی شہر کی ناکہ بندی کردیں گے۔ کرانتی کاری کسان یونین کے صدر درشن پال نے کہا کہ مودی حکومت کسانوں پر ظلم و زیادتی کررہی ہے۔ ہم حکومت کے ساتھ ان قوانین کے بارے میں شق بہ شق کوئی تبادلہ کرنا نہیں چاہتے۔ ہم سیدھے طور پر ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی ان قوانین پر اپنے اعتراضات پر مشتمل 10 صفحات کے دستاویز کو حکومت کے حوالے کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہیکہ ان تمام قوانین کو فوری واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کی اس تحریک میں پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ ہم تمام نے سمیوکت کسان مورچہ کے بیانر تلے عہد کیا ہیکہ ان قوانین کو ختم کرا کے رہیں گے۔ یہ نہ صرف پنجاب کے کسانوں کی جدوجہد ہیکہ بلکہ پورے ملک کے کسانوں کی جدوجہد ہے۔ ہم نے بھارتیہ کسان یونین ٹکٹ گروپ کے راکیش ٹکٹ سے بھی ملاقات کی ہے۔ انہوں نے بھی ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد سے اتفاق کیا ہے۔ اسی دوران آل انڈیا موٹر ٹرانسپورٹ کانگریس نے 8 ڈسمبر سے ملک گیر ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کے احتجاج کی تائید میں یہ ہڑتال کی جائے گی۔ 10 ملین ٹرکس کے یونینوں کی نمائندگی کرنے والے ادارے نے آج مودی حکومت کو دھمکی دی کہ اگر اس نے کسانوں کو پریشان کیا تو ہم ملک بھر میں ضروری اشیاء کی سربراہی روک دیں گے۔ ستمبر میں لائے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ آل انڈیا موٹرس ٹرانسپورٹ کانگریس کے صدر کلترن سنگھ اتوال نے کہا کہ ہماری تمام گاڑیاں شمالی ہند کی ریاستوں مرکزی زیرانتظام علاقوں کے علاوہ دہلی، ہریانہ، اترپردیش، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں کشمیر چلائی جاتی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کرلیا ہیکہ اگر مودی حکومت نے احتجاجی کسانوں کے مطالبات کو پورا نہیں کیا تو ہم ہندوستان بھر میں چکہ جام کا اعلان کردیں گے۔ ہماری تمام موٹرگاڑیاں روک دیں گے۔ کسانوں کے علاوہ کئی کھلاڑیوں، اسپورٹس سے وابستہ شخصیتوں اور سابق فوجیوں نے بھی مودی حکومت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ کسانوں کے حق میں کئی اسپورٹس کھلاڑی اپنے میڈلس واپس کرنے کیلئے تیار ہیں۔