کسانوں کے قتل پر مودی اور شاہ کی مجرمانہ خاموشی

   

برندا کرت
دُنیا بھر میں یہ ایک ایسا پہلا واقعہ ہوگا جس میں مرکزی حکومت میں شامل ایک مملکتی وزیر کے سرکاری قافلے اور وہ بھی وزارت اُمور داخلہ سے تعلق رکھنے والے وزیر جس سے لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کی توقع کی جاتی ہے اور وہ لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے کا فریضہ انجام دیتا ہے،میں شامل کاروں نے احتجاجی کسانوں کو روند ڈالا جس میں 8 کسان اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ پچھلی مرتبہ اسی نوعیت کے ایک واقعہ نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی جب سال 2017ء کے دوران لندن بریج پر دہشت گردانہ حملے کا واقعہ پیش آیا تھا ، اس واقعہ میں ایک ویان نے جس میں تین افراد سوار تھے، راہگیروں کو کچل دیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لکھیم پور کھیری میں جو کچھ بھی ہو، وہ بھی کسی طرح دہشت گردانہ حملے سے کم نہیں تھا۔ وہ اسی طرح کا حملہ تھا جس طرح لندن میں پیش آیا۔ درحقیقت یہ واقعہ تو لندن واقعہ سے بھی بدترین تھا، کیونکہ اس دہشت گردانہ کارروائی کو ریاستی عناصر نے انجام دیا۔ مرکزی مملکتی وزیر اجئے مشرا راست طور پر اس کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ہم اسے انتہائی سفاکانہ دہشت گرد حملہ قرار دے سکتے ہیں۔ ایک ہفتہ یا اس سے قبل بی جے پی کے اسی وزیر نے پرامن کسان احتجاجیوں کو کھلے عام دھمکی دی تھی۔ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مشرا نے کسانوں کو بزدل قرار دیا تھا اور انہیں چیلنج کیا تھا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو ان کی موجودگی میں سیاہ پرچموں کے ساتھ احتجاج کرکے دکھائیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں سبق سکھایا جائے گا۔ کیا اس طرح کی دھمکی اور اس قسم کی زبان ایک مرکزی وزیر کو استعمال کرنی چاہئے۔ لکھیم پور کھیری میں جو واقعہ پیش آیا اس وقت ایک سرکاری پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں خود چیف منسٹر، ڈپٹی چیف منسٹر اور اجئے مشرا حصہ لینے والے تھے، لیکن ڈپٹی چیف منسٹر اور اجئے مشرا کا قافلہ پروگرام کے مقام کی سمت روانہ ہورہا تھا لیکن جب مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف احتجاج کیلئے کسان جمع ہوگئے تو خوف کے مارے وہ سرکاری پروگرام منسوخ کردیا گیا۔ جس وقت سرکاری قافلے میں شامل تیز رفتار کاریں آرہی تھیں، اس وقت کسان منتشر ہورہے تھے۔ کسانوں کے مطابق مرکزی مملکتی وزیر کا بیٹا سرکاری قافلے میں شامل تھا اور اس نے اپنی کار سے چند کسانوں کو کچل ڈالا۔ جوابی کارروائی میں دیگر چار افراد بھی مارے گئے۔ کسان صرف لکھیم پور میں احتجاج نہیں کررہے ہیں بلکہ ملک بھر میں اب بھی کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعہ نے سارے ہندوستان کو دہلا کر رکھ دیا اور سب سے اہم بات یہ رہی کہ ادتیہ ناتھ حکومت، مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور ہوئی تاہم یہ سطور لکھے جانے تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی مرکزی وزیر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ کسان اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ مرکزی وزیر کو فوری برطرف کیا جائے اور ان کا مطالبہ بالکل جائز اور تائید و حمایت کا مستحق ہے۔ ساتھ ہی علاقہ میں لاک ڈاؤن نافذ کیا جانا اور مہلوک کسانوں کے ورثاء کو پرسہ دینے کیلئے جانے والے اپوزیشن قائدین کی گرفتاری بھی قابل اعتراض ہے۔ یہ اپوزیشن قائدین وہاں فساد برپا کرنے نہیں جارہے تھے بلکہ کسانوں کے غم زدہ ارکان خاندان سے اظہار تعزیت اور ان کی دلجوئی کیلئے جارہے تھے۔
اپوزیشن قائدین کی گرفتاریاں جمہوریت پر راست حملہ ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی جے پی کی طرز حکمرانی دستور ہند کی بنیاد پر نہیں بلکہ تخریبی سیاست اور انانیت پر ہے۔ بی جے پی نے کسانوں کو مذہب، زبان اور علاقہ کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی اور جب وہ اس میں ناکام ہوگئی تب بی جے پی نے احتجاجی کسانوں کے خلاف قانونی کارروائی اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات درج کرنے کا طریقہ اپنایا۔ جب اس کی یہ کوششیں بھی ناکام ہوگئیں تو اس نے اپنے وزراء کو اپنے سرکاری عہدوں کے استعمال کا لائسنس دے دیا تاکہ وہ اپنے سرکاری موقف کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کسانوں پر راست حملے کیلئے غیرسماجی عناصر اور مجرمین کی فوج تیار کریں۔ مرکزی مملکتی وزیر داخلہ مشرا نے جو بیانات دیئے، اس میں کھلے طور پر کسانوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔ انہوں نے ان کے خلاف گالیاں بکے تھے۔ اس سے پہلے چیف منسٹر ہریانہ نے کسانوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کی۔ جس دن کسانوں کو اترپردیش میں گاڑیوں سے روندا گیا اور ان کا قتل کیا گیا، اس وقت چیف منسٹر ہریانہ منوہر لعل کھٹر ہریانہ میں اپنی پارٹی کارکنوں کو اُکسا رہے تھے کہ وہ کسانوں کے احتجاج کا جواب لاٹھیوں سے دے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے یہاں تک کہا کہ جیل جانے سے ڈرو مت، اگر جیل جاؤگے تو بڑے لیڈر بنو گے۔ اگر تمہیں لیڈر بننا ہو تو جیل جانے کیلئے تیار رہو۔ اس سے پہلے ہریانہ ہی میں ایک کسان کو ہلاک کردیا گیا اور کئی کسانوں کو زخمی کردیا گیا۔ اس دوران حکومت ہریانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس کے آدمیوں کو چاہئے کہ احتجاجی کسانوں کے سَر پھوڑ دیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح چیف منسٹر منوہر لعل کھٹر عجیب و غریب انداز میں اپنے پارٹی کارکنوں کو کسانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ ایسے میں چیف منسٹر ہریانہ کے خلاف تشدد پر اکسانے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔
اگر لکھیم پور میں جو بہیمانہ قسم کا واقعہ پیش آیا ، اس قسم کا واقعہ کسی اور ملک میں پیش آتا تو وہاں کی حکومت کا سربراہ کم از کم اظہار افسوس کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرتا یا پھر اظہار تعزیت کرتا۔ اس سلسلے میں ہم سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال پیش کرسکتے تھے وہ اپنے نسلی تعصب کیلئے بدنام ہیں، اس کے باوجود انہوں نے ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں انتہائی بیدردی سے مارے گئے سیاہ فام باشندہ جارج فلائیڈ کے ارکان خاندان سے اظہار تعزیت کیا تھا اور اس اظہار تعزیت کیلئے انہوں نے فلائیڈ کی موت کے چار دن بعد بیان جاری کیا، لیکن ہاؤڈی موڈی نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ وہ ایسے خاموش رہے کہ اس طرح کے واقعات سے ان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی خاموشی بھی حیرت انگیز ہے۔ چند دن قبل ہی یہ دونوں لیڈر یعنی مودی اور امیت شاہ ، ادتیہ ناتھ حکومت کی تعریف پہ تعریف کئے جارہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ادتیہ ناتھ حکومت نے کئی محاذوں پر کامیابی حاصل کی لیکن حالیہ عرصہ کے دوران کسانوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور صدمہ انگیز واقعہ پیش آیا، اس بارے میں کچھ کہنے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں۔ ان کی خاموشی اس بات کا پیام ہے کہ کسانوں کے خلاف جو کچھ بھی ہوا ، حکومت کے اعلیٰ رہنماؤں کی اسے تائید و حمایت حاصل تھی۔ ہندوستانی کسان پچھلے 10 ماہ سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، ان کا یہ مطالبہ ہے کہ کسانوں کے نام پر جو بھی زرعی قوانین بنائے جائیں یا بنائے گئے ہیں، اس سے پہلے ان سے مشاورت کی جانی چاہئے تھی۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت نے جو تین زرعی قوانین منظور کئے ہیں، وہ کسان دشمن ہیں، اس تعلق سے کسانوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ کسان یہی چاہتے ہیں کہ تینوں زرعی قوانین واپس لئے جائیں اس سے نہ صرف کسانوں کے مفادات کا تحفظ ہوگا، بلکہ جمہوری حکمرانی کے اصول بھی محفوظ رہیں گے۔ کسانوں کی تحریک تاریخی طور پر پرامن نوعیت کی ہے۔ کسانوں نے اتحاد کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا اور قربانی بھی دی۔ کسانوں کیلئے بڑھتی تائید نے بی جے پی کو مایوس کردیا ہے، وہ جان گئی ہے کہ کسانوں کے خلاف اقدامات سے کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ہندوستانی شہری لکھیم پور کھیری واقعہ کے ضمن میں کسانوں کے ساتھ اظہار یگانگت کریں۔
نوٹ : برندا کرت سی پی آئی ایم پولیٹ بیورو کی رکن اور سابق رکن راجیہ سبھا ہیں۔