کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے مہوا موئترا پارلیمنٹ کی نئی آواز

   

محمد ریاض احمد
ترنمول کانگریس کی نو منتخب رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا پارلیمنٹ میں اپنی پہلی ہی تقریر سے سارے ملک میں اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اپنی شعلہ بیانی، انگریزی زبان پر غیر معمولی عبور، الفاظ کے خوبصورت انتخاب اور فرقہ پرست درندوں کے بدنما چہروں پر زور دار طمانچہ رسید کرنے والے اشعار کے ذریعہ موئترا نے نہ صرف ایوان بلکہ سارے ملک کے عوام کے دل جیت لئے ۔ اپنے خطاب میں موئترا نے پارلیمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اور وزراء کے چہروں پر ہوائیں اُڑ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پارلیمنٹ میں صرف موئترا کی جاندار و جذباتی آواز گونج رہی ہے اور باقی تمام کی زبانیں گنگ اور آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ہو ۔ مہوا موئترا کی پہلی تقریر سے ہی اندازہ ہورہا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے ہی سیاسی میچ میں سنچری نہیں بلکہ ٹریپل سنچری اسکور کردی ۔ 44 سالہ مہوا موئترا کو صرف ہندوستان میں ہی نہیں سناگیا بلکہ ساری دنیا کے لاکھوں لوگوں نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں ان کی گھن گرج سنی اور ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکے ۔ موئترا اپنے خطاب کے دوران جب کہتی کہ جناب اسپیکر پیشہ ورانہ مداخلت کاروں پر کنٹرول کریں ا یوان کو قابو میں رکھیں تو اسپیکر لاجواب ہوجاتے، مسکراہٹ کے سواء ان کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ موئترا کی تقریر کے دوران دیکھا گیا کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر بی جے پی ا رکان موئترا کی معیاری انگریزی سمجھ نہیں پائے ورنہ وہ چیخ و پکار کرتے ہوئے ان کے خطاب میں خلل اندازی ضرور کرتے ۔ موئترا جہاں بہترین انداز میں بی جے پی حکومت کی فرقہ پرستی کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کی مذمت کرنے میں کامیاب رہی وہیں اسپیکر سے انہیں دیئے گئے وقت سے زائد وقت تک بولتے رہنے میں بھی کامیاب رہیں۔ انہوں نے جب بی جے پی کو فاشزم سے جوڑا تب بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ زعفرانی جماعت کے ارکان خاموش رہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی تقریر کس قدر پر اثر رہی اور وہ بی جے پی ارکان پر کیسے اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب رہی ۔ بالفاظ دیگر موئترا نے اپنے خطاب کے ذریعہ وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ، وزیر فینانس نرملا سیتا رمن ، وزیر بہبود خواتین و اطفال سمرتی ایرانی کی بولتی بند کردی، انہیں لا جواب کردیا ، ان تمام کو سکتہ کا شکار بنادیا ۔ آپ کو بتادیں کہ مہوا موئترا سیاست کیلئے کوئی نئی نہیں ہیں لیکن وہ زیادہ منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ دراصل پہلے وہ یوتھ کانگریس سے وابستہ تھیں اور اب ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے پارلیمنٹ کو دہلاکر رکھ دیا ۔ وہ امریکہ میں انوسمنٹ بینکر تھیں۔ 2008 ء میں ہندوستان واپس آکر سیاسی شعبہ میں داخل ہونے سے پہلے جے پی مورگن کی نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں۔ راہول گاندھی کے ساتھ بھی انہیں کام کا موقع ملا۔ راہول گاندھی ان سے کافی متاثر ہوئے اور مغربی بنگال میں یوتھ کانگریس کی انچارج کے ذمہ دارانہ عہدہ پر فائز کیا ۔ بعد میں کانگریس کی حالت زار دیکھتے ہوئے موئترا نے کانگریس کو خیر باد کہہ دیا ۔ تاہم 2010 ء میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے جو خود بی جے پی پر خوف طاری کرنے کے معاملہ میں خاصی مشہور ہیں، موئترا کو ترنمول کانگریس میں شامل کیا ۔ 2016 ء میں کولکتہ سے ٹی ایم سی نے موئترا کو اپنا امیدوار بنایا ، پارٹی نے ان پر جو اعتماد کیا تھا ، اسے برقرار رکھتے ہوئے موئترا نے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ اس کامیابی کے ساتھ ممتا بنرجی نے موئترا کو ترقی دیتے ہوئے پارٹی جنرل سکریٹری اور اس کی ترجمان بھی مقرر کردیا ۔ حالانکہ کانگریس کیلئے موئترا جیسی حرکیاتی نوجوان لیڈر ایک سیاسی اثاثہ ثابت ہوسکتی تھیں لیکن کانگریس ان کی اُس طرح قدر نہیں کی جس طرح ٹی ایم سی نے کی ۔ ٹی ایم سی قیادت نے موئترا کو 2019 ء کے عام انتخابات میں کرشنا نگر پارلیمانی حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا اور وہ کامیاب بھی ہوئیں، حالانکہ بی جے پی فرقہ وارانہ کارڈ کھیل رہی تھی۔ پارٹی میں بھی موئترا کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر پر مباحث میں حصہ لینے کے لئے پارٹی کے سینئر رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرئن کے ساتھ پارلیمنٹ میں خطاب کا موقع دیا۔ اگرچہ ڈیرک اوبرئن نے نصف گھنٹہ طویل تقریر کی لیکن انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ۔ وہ اپنے دلائل پر گفتگو کے ذ ریعہ ٹیلی ویژن کے خطرناک سمجھے جانے والے اینکرس کو بھی پریشان کردیا کرتی تھیں۔ 2017 ء میں انہوں نے گلوکار بابل سپریو کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا جبکہ سپریو مودی کابینہ میں شامل تھے کیونکہ بابل سپریو نے مہوا کے خلاف نازیبا ریمارکس کئے تھے۔ موئترا کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا ہے ۔ خود وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ آسام میں NRC سے متاثر لوگوں سے ملاقات کے لئے جن ٹی ایم سی ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کا ایک وفد سلچر ایرپورٹ پہنچا تب موئترا نے انہیں وہاں روک دینے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک خاتون پولیس عہدیدار پر مبینہ طورپر حملہ کردیا تھا۔
اپنے دلائل سے پر اور لاجواب کردینے والے خطاب کے ذریعہ پارلیمنٹ کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے والی مہوا موئترا نے امریکہ کے میسوچسٹس ماؤنٹ ہولیو یوک کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے ریاضی اور اکنامکس پڑھی۔ وہ انتہائی صاف گو تصور کی جاتی ہیں۔ اپنی عمر کے 44 بہاریں دیکھنے کے باوجود موئترا نے شادی نہیں کی ۔ ان کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش پر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ 18 سال کی عمر سے ہی سیاست میں دلچسپی لینے لگی تھیں۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران موئترا نے تعلیم و روزگار اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کی اور ہمیشہ طلباء و طالبات سے قریب رہیں ۔
موئترا کے سیاسی شعبہ میں داخلہ کا سبب بھی بڑا دلچسپ ہے ۔ طویل عرصہ بعد دراصل کالج کے ساتھیوں کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ انہوں نے اس ملاقات میں دیکھا کہ ان کے بیاچ کے تمام کے تمام ساتھی کامیاب بنکرس ہیں ۔ اسی دن موئترا نے عہد کرلیا تھا کہ جب 20 سالہ ری یونین ہوگا تب وہ ایک بنکر کی یا ایک اور مینجنگ ڈئرکٹر کی حیثیت سے شرکت نہیں کریں گی بلکہ اپنی ایک علحدہ و منفرد پہچان کے ساتھ تقریب میں شرکت کو یقینی بنائیں گی ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ ہندوستان واپس ہوگئیں جس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوگیا۔ موئتر اایک انقلابی طبیعت کی حامل ہیں اور انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران ثابت بھی کردیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہوگی کہ امریکہ منتقلی سے قبل جبکہ ان کی عمر 15 سال تھی اپنی ابتدائی زندگی آسام اور کولکتہ میں گزاری۔ انہیں نیویارک سٹی اور لندن میں بھی بنکر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ مہوا موئترا کے بارے میں کافی معلومات دستیاب ہیں لیکن بنگالی برہمن خاندان سے تعلق رکھنے والی اس سیاستداں کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ۔ ان کے والد دیویندرا لال موئترا کے تعلق سے بھی زیادہ تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ کرشنا نگر سے بی جے پی امیدوار کلیان جوبے کو 65404 ووٹوں سے شکست دے کر بھی انہوں نے بنگال کے سیاسی حلقوں میں ایک منفرد کارنامہ انجام دیا تھا ۔ جہاں تک موئترا کی ازدواجی زندگی کا سوال ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ٹی اے اسوسی ایٹس سے وابستہ ڈنمارک کے ایک انوسمنٹ پنچ لارس برورسن سے شادی بھی کی تھی ۔ بہرحال پارلیمنٹ میں موئترا کی پہلی تقریر نے انہیں ان سیاستدانوں کی صف میں لا کھڑا کردیا ہے جو فرقہ پرست طاقتوں اور فرضی قوم پرستوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ رقمی یا عہدہ کے لالچ سے ان کے قدم نہیں ڈگمگاتے۔
mriyaz2002@yahoo.com