نئی دہلی۔مگر پچھلے کچھ ہفتوں سے مذکورہ ریاست کو ترقی اور انصاف کے ایک اشتراک کی ضرورت ہے‘ دونوں ایوانوں میں جموں کشمیر پر بحث کے دوران منقسم رائے دیکھائی دی ہے۔
بحث کا پس منظر ریاست میں مزید چھ ماہ کے لئے صدر راج میں توسیع (جس کے لئے قانون کی منظوری) ہے اورتحفظات کو ریاست کے بین الاقوامی سرحدوں کے قریب رہنے والے شہریوں تک توسیع دینا ہے۔
مگر یہ جموں او رکشمیر میں خاص حالات پر بڑے پیمانے کی بحث کا موقع بن گیاہے‘ جس میں انڈین یونین سے رشتے‘ تشدد او ردہشت گردی‘ پاکستان کا رول‘ نئی دہلی کی غلطیاں‘
وادی میں بیگانگی‘ریاست میں ڈاؤرسٹی‘اور ریاست میں جمہوری اقدار کی اجارہ داری جیسے موضوعات شامل تھے۔
سب سے ہم مداخلت ہوم منسٹر امیت شاہ کی جانب سے سامنے ائی۔اس سے بالاتر ہوکر کہ کوئی اس سے اتفاق کرے یانہ کرے‘ یہاں پر ایک چھوٹا شک یہ تھا کہ مسٹر شاہ جنھوں نے انتہائی واضح اور سزا دینے کی بات کی اور مرکز کو جموں کشمیر پر سونچنے کے لئے چھوڑ دیا۔
انہوں نے زوردیاکہ ریاست ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ایک موقف جس پر دونوں ایوانوں ہر کسی نے اتفاق ظاہر کیا۔
انہوں نے دہشت پر سخت لائن پیش کی او رکہاکہ یہ مرکز کشمیر میں تشدد کا ماحول بنانے والے کسی بھی عناصر کو نہیں بخشے گا‘ جس میں ضرورت پڑنے پر سرجد پار سے کوئی والے کوشش بھی شامل رہے گی۔
یہ پیشکشی کا وہ طریقہ ہے جونریندر مودی حکومت نے اپنی پہلی معیاد میں کی تھی۔
پھر انہوں نے جمہوریت کے معنی کو وسعت دی‘ او رکہاکہ پنچایت سطح کے الیکشن کراتے ہوئے مرکز نے زمین سطح کو خود مختار بنایاہے۔
انہو ں نے اس کے حوالے سے ریاست میں بناء الیکشن کے صدر راج کو وسعت دینے کی بات پر زور بھی دیاہے۔ مگر مسٹر شاہ نے جو کہاکہ وہ بڑے پیمانے پر نظریاتی پیشکش تھی۔
کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح نہیں جو جموں کشمیر کو خصوصی معاملے کے طور پر دیکھتے ہیں‘ مذکورہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ مزید ہم آہنگی کااظہار کرتے ہوئے انڈین یونین کی دیگر ریاستوں کے طور پر جموں کشمیر کے ساتھ سلوک کیاہے۔
یہی وجہہ ہے کہ وہ خصوصی قانون جس کو شاہ نے زوردیتے ہوئے کہاکہ ”عارضی“ ہے۔دوسرا فرق یہ ہے مسٹر شاہ نے وادی کے تمام تر حالات کاذمہ دار کانگریس پارٹی کو ٹہرایا ہے جس 1948کے دوران ہوئی جنگ بندی کے بعد سے خط قبضہ کے اطراف بڑھنے والی فائرینگ بھی شامل ہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں پیش ہونا اور الیکشن میں دھاندلیاں بھی شامل ہیں۔