کشمیریوں سے بیگانگی اصل مسئلہ ‘ فضائی حملہ سے کیا ہوگا؟

   

رام پنیانی
خودکش دہشت گرد عادل احمد ڈار نے 14 فبروری 2019ء کو دھماکو مادے سے لدی اپنی کار سی آر پی ایف قافلے کے دو ٹرکوں میں گھسا دی۔ دھماکے کے نتیجے میں 44 جوانوں کا بے رحمانہ قتل ہوا، جو بڑا قومی سانحہ ہے، نہایت قابل نفرت اور قابل مذمت ہے۔ شدت اور جانی نقصان کے معاملے میں اس نے اُری حملے کو تک پیچھے چھوڑ دیا جو 18 سپٹمبر 2016ء کو پیش آیا تھا جس میں چار بھاری طور پر مسلح دہشت گردوں نے ایک آرمی بریگیڈ ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بناتے ہوئے 19 سپاہیوں کو ہلاک کیا تھا۔ پلوامہ حملہ اُس کار بم دھماکے سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے جو سری نگر میں یکم اکٹوبر 2001ء کو جموں اینڈ کشمیر لیجسلیٹیو اسمبلی کامپلکس میں پیش آیا تھا، جس میں 38 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اُری اور قانون ساز اسمبلی دہشت گردانہ حملے دونوں کے بارے میں بتایا گیا کہ پاکستان کی سرگرم دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے کرائے۔ یہی آرگنائزیشن نے اب پلوامہ حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
اُری حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک کیا، یہ سوچ کر کہ اُری دہشت گرد حملہ کا یہی منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان نے اپنی سرزمین پر اس طرح کے کسی حملہ کی تردید کردی۔ کسی کو یاد ہو کہ نہ ہو، جب نوٹ بندی کی گئی، تب دعویٰ کیا گیا کہ اس سے کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی آئے گی کیوں کہ دہشت گرد جعلی کرنسی کے ساتھ سرگرمی چلانے کے قابل نہ رہیں گے، اور نوٹ بندی ایسی کرنسی کو بے فیض بنادے گی۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ وہاں عسکریت پسندی میں کوئی تخفیف نہیں ہوئی۔ مودی حکومت حملے کے بعد اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ آرمی کو ایسی صورتحال کو زائل کرنے کیلئے مناسب اقدامات کرنے کیلئے اختیار دیا گیا ہے۔
دریں اثناء ملک بھر میں واقعتا جو دیگر تبدیلیاں ہورہی ہیں، وہ پریشان کن ہیں۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ کشمیری اسٹوڈنٹس کو کئی ریاستوں کے مختلف شہروں میں دھمکایا جارہا ہے۔ گورنر میگھالیہ تتھاگٹا رائے نے کشمیریوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ہندوتوا گروپوں جیسے بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کی دانستہ کوشش ہورہی ہے کہ ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے جاپ، ترنگا لہراتے ہوئے، پاکستان کے خلاف نعرے بازی، اور مسلمانوں کو پاکستان سے جوڑتے ہوئے قوم پرستی کے جذبات اُبھارے جائیں۔ بعض نامور لوگ جیسے انوپم کھیر اور سونو نگم سکیولر اور روادار لوگوں کے خلاف غصہ نکال رہے ہیں۔ کئی مقامات پر نام نہاد رکشک گروپ مسلمانوں کو دھمکا رہے ہیں۔
جموں کی صورتحال کرفیو کے نفاذ کی متقاضی تھی کیوں کہ علاقے میں مسلمانوں کو خطرہ بڑھ چکا تھا۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے اسٹیٹ چیف رویندر رائنا اور ایم پی جگل کشور نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے احتجاجوں میں حصہ لیا۔ بی جے پی نے اس تشدد سے خود کو لاتعلق کرلیا لیکن ان کینہ پرور احتجاجوں میں اپنے قائدین کی شرکت کا کوئی مذمتی بیان نہیں دیا۔ اس تشدد نے جموں اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں مقیم کشمیری مسلمانوں کو خوفزدہ کیا ہے۔
یہ اور معاملہ ہے کہ مختلف مقامات پر کئی مسلم گروپوں نے سڑکوں پر آکر پاکستان کو نشانہ بنایا اور دہشت گرد حملے کی پُرزور مذمت کی۔ درگاہ اجمیر کے دیوان سید زین العابدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے لوگوں کو درگاہ اجمیر کی زیارت سے روک دینا چاہئے۔ ایک طرف امن پسند جہدکار اور مختلف گروپوں نے مظلوم کشمیریوں کو پناہ دینے کی اپیل جاری کی ہے، وہیں کئی مقامی سطح کے قائدین نے دھمکی دی کہ پناہ گزیں کشمیریوں پر حملے کئے جائیں گے۔ فرقہ پرست عناصر کی تقاریر ماحول کو نہایت منفی اور انتشار پسند انداز میں گرما رہے ہیں۔
ہم کس طرح اس صورتحال سے نمٹیں اور کشمیر میں امن لائیں؟ اول، ہمیں جاننا ہوگا کہ کیوں یہ خطہ اس قدر دہشت کی لپیٹ میں ہے۔ کئی عوامل ہیں جو گڈمڈ ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں عسکریت پسندی 1960ء کے دہے میں شروع ہوئی اور دہا 1980ء سے ہولناک حد تک بڑھ گئی۔ اصل مسئلہ کشمیر میں اجنبی کردینے کا احساس ہے۔ ایسا احساس ہے کہ اُن کی خودمختاری گزرتے وقت کے ساتھ گھٹا دی گئی ہے۔ یہ خودمختاری اُس میثاق کا حصہ ہے جس کے ذریعے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق ہوا۔ آرٹیکل 370 کے مطابق کشمیر اسمبلی کو تمام تر اختیارات ہیں ماسوائے دفاع، مواصلات، کرنسی اور امور خارجہ کے شعبے۔ اس آرٹیکل کی تنسیخ آر ایس ایس۔ بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈہ کا اہم حصہ رہی ہے۔
کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے بعد فرقہ پرست گروپوں نے مہم چھیڑ دی کہ کشمیر کو مکمل طور پر ہندوستان میں ضم کرنا چاہئے۔ اس بات نے کشمیری عوام کو 1950ء کے دہے سے ہی اجنبی و بیگانہ بنانے کے عمل کے بیج بودیئے۔ جب یہ اجنبیت میں اضافہ ہونے لگا تو اس کے نتیجے میں کئی عناصر برہم ہوگئے اور آخرکار عسکریت پسند کا جنم ہوا، جس کی سرحدپار سے پاکستان نے بھرپور حمایت کی۔ ایک اور تبدیلی جو خطے میں دہشت گردی کو بڑھانے کا موجب بنی، تیل کے وسائل پر کنٹرول کی سیاست سے متعلق ہے۔ یہ عمل امریکہ نے شروع کیا جس نے القاعدہ نوعیت کے عناصر کو پاکستانی مدرسوں میں فروغ دینے میں مدد کی۔ دہشت گرد عناصر کو فروغ دینے کے عمل کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ 1980ء کے دہے میں امریکہ نے اس کی بھرپور فنڈنگ بھی کی (امریکہ نے 8,000 ملین ڈالر خرچ کئے اور 7,000 میٹرک ٹن تک اسلحہ فراہم کئے)۔
یہ دہشت گرد گروپ افغانستان پر سویت؍ روسی قبضے کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد بیروزگار ہوگئے اور اس لئے کشمیر میں گھسے، اور وہاں عمومی بے اطمینانی کا فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کشمیر کے منفرد کلچر ’کشمیریت‘ کو پامال کیا، جو بودھ اقدار، ویدانت اور صوفی روایت کے امتزاج والا کلچر ہے۔ یہ بڑے عوامل میں سے ہے جس نے مسئلہ کشمیر کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کیا اور وادی سے کشمیری پنڈتوں کے اخراج کا موجب بنا۔
القاعدہ نوعیت کے دہشت گرد گروپ جن کی امریکہ نے فنڈنگ کی اور جن کو پاکستان نے پناہ دی، اب عفریت کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ پاکستان نے زائد از ستر ہزار لوگ دہشت گردانہ حملوں میں کھوئے بشمول سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو۔ ان دہشت گرد گروپوں کو فی الواقع پاکستان آرمی کے ایک گوشہ کی سرپرستی حاصل ہے۔
خطہ کشمیر میں کھلبلی کی صورتحال کا جواب کشمیر میں دہشت گردی کے آغاز اور فروغ کو جامع طور پر سمجھنے کا متقاضی ہے۔ جیش محمد کا کارندہ عادل احمد ڈار کشمیر کا مقامی لڑکا تھا، جس نے آرمی کی جانب سے پٹائی کے بعد دہشت گردی کی راہ اختیار کرلی۔ ابھی تک دہشت گرد تنظیموں کے زیادہ تر کارندے سرحدپار کے تھے۔ اب مشتعل مقامی لڑکوں نے بھی ان تنظیموں میں شامل ہونا شروع کردیا ہے۔ یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ مودی حکمرانی کے گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران دہشت گردانہ حرکتوں، دہشت گردی کیلئے بھرتیوں اور اس طرح کے واقعات میں آرمی پرسونل کی ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ’انڈیا اسپنڈ‘ (نان پرافٹ ڈیٹا پورٹل) کے حکومتی مواد پر مبنی تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں 2017ء تک تین برسوں میں زائد از 800 دہشت گردانہ واقعات درج ہوئے، جبکہ 2015ء میں 208 تھے۔ ان تین برسوں میں 744 لوگ مارے گئے: 471 دہشت گرد، 201 سکیورٹی فورسیس پرسونل اور 72 عام شہری۔ یوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان سے سرگرم دہشت گرد گروپوں نے دہشت گردانہ حرکتوں کو بڑھانے میں بڑا رول ادا کیا ہے، لیکن مساوی طور پر سچ یہ بھی ہے کہ یہ اضافہ مودی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جہاں بات چیت کی جگہ گولیوں اور پیلٹ بندوقوں نے لے لی ہے۔ کیا دہشت گردی کا صرف گولیوں سے صفایا کیا جاسکتا ہے؟
ہمیں بلاشبہ ہماری انٹلیجنس اور سکیوریٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے حملوں کے اعادے کو روکا جاسکے۔ یقینا پاکستان نشین دہشت گرد گروپوں کو سزا دینے اور کیفرکردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ سرجیکل اسٹرائک اور جارحانہ بیان بازی خطے کو موجودہ تکلیف دہ صورتحال سے نہیں بچاسکتی۔ جنگ کوئی حل نہیں، وہ تو خود ایک مسئلہ ہے۔ جنگ کی ضرب اور اس کے نقصانات کو پھر ایک بار سپاہیوں کو برداشت کرنے پڑیں گے۔ اس کے ساتھ سارا خطہ عملاً گہری کھائی میں گرجائے گا جس سے نکلنے کیلئے برسہابرس لگ جائیں گے۔ کشمیر میں اور ہمارے پڑوسی کے ساتھ ٹھوس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہمیں برہم عناصر اور ہمارے پڑوسی کے ساتھ مذاکرات کا ٹھوس عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطہ میں امن لایا جاسکے۔ دیرپا امن ہماری ضرورت ہے؛ عارضی اور جارحانہ اقدامات اس خطہ میں دہشت گردی کے بیجوں کا صفایا نہیں کریں گے۔ ہمیں محاسبہ کرنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ جہاں پاکستانی حمایت اور دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے صورتحال بگڑرہی ہے، وہیں جب تک ہم مقامی لوگوں کی شکایت دور نہیں کریں گے، بیرونی عناصر مقامی اور ناراض عناصر کو بھڑکاتے اور ان کی مدد کرتے ہوئے حالات کا استحصال کرتے رہیں گے۔
جوابی کارروائی کا ماحول پیدا ہونے سے صورتحال ابتر ہورہی ہے۔ یہ کوتاہ نظر ردعمل ہے، اور خطہ میں دہشت گردی کے مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ موجودہ ماحول ایسا ہے کہ مسلمانوں میں عدم سلامتی کا احساس ہے اور کشمیریوں کو نشانہ بنانے سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔ ہمیں ہمارے تمام شہریوں کو سلامتی اور بھائی چارہ کا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ قیادت کی طرف سے ہم آہنگی کی اپیل فرقہ پرست عناصر کو قابو میں رکھ سکتی ہے جو حد سے زائد قوم پرستی کے اپنے مظاہرے میں ایسی صورتحال پیدا کررہے ہیں جو بھائی چارہ کے اصول، ہماری قوم کی بنیاد اور ہمارے دستور کی اساس کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com