مذکورہ کشمیر ہائی کورٹ نے نظر بندی کے دوران طریقہ کار کی خرابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ریلیف دیا۔
کشمیری صحافی آصف سلطان آخر کار پانچ سال کی تحویل کے بعد اترپردیش کے امبیڈ کر نگر ضلع جیل سے منگل 27فبروری کے روز رہا ہوگئے ہیں۔
مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ کشمیر ہائی کورٹ نے نظر بندی کے دوران طریقہ کار کی خرابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ریلیف دیا۔پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تحویل کے احکامات کو جموں کشمیر ہائی کورٹ کی جانب سے منسوخ کرنے کے 78دنوں بعد آصف سلطان کو رہا کردیاہے۔
ابتدائی طور پر 2018میں ’عسکریت پسندوں کو پناہ دینے‘کے الزام میں گرفتار کیاگیاتھا۔ اپنی رہائی سے قبل سلطان نے جملہ 2011دن جیل میں گذارے ہیں۔
رنبر پینل کوڈ اور یو اے پی اے کے تحت 2018میں ان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والی ایک طویلی قانونی جنگ کا اس رہائی کے بعد خاتمہ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے
۔ قبل ازیں عدالت کی طرف سے ضمانت منظور کئے جانے کے باوجود‘ طریقہ کار کے تقاضوں نے ان کی رہائی میں اس وقت تک تاخیر کی جب تک آصف کے اہل خانہ نے کشمیر کے محکمہ داخلہ اور سری نگر کے ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے جیل حکام کو کلینئرنس لیٹر فراہم نہیں کیاہے۔
تاہم ان کی نظر بندی ختم ہونے کے چند دن بعد‘ سلطان کو پھر ایک مرتبہ حراست میں لیاگیااور اس مرتبہ حراست پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اپریل 2022 کو گرفتاری عمل میں ائی۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ نے 11ڈسمبر کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سلطان کی تحویل کو منسوخ کردیاتھا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی فرد کو بغیر کسی سنوائی کے قومی سلامتی کے خطوط پر دوسالوں کے لئے اور پبلک آرڈر کی برقراری کے لئے ایک سال تک تحویل میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
سلطان آصف کے معاملے نے آزادی صحافت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خدشات کی وجہہ سے توجہہ حاصل کی ہے۔
آصف سلطان کا گرفتاری سے رہائی تک کا سفر تنازعات والے علاقوں میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کی طرف توجہہ دلاتا ہے او رایسے معاملات میں قانونی عمل کے متعلق سوالات کھڑے کرتا ہے۔ان کی رہائی انصاف اور آزادی صحافت کی وکالت کرنے والوں کے لئے ایک علامت ہے۔