کشمیر میں لاک ڈاؤن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

,

   

سری نگر۔جموں و کشمیر میں گذشتہ 11 ماہ میں لاک ڈائون کے دوران انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ ’’دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر‘‘نامی تنظیم نے اپنی رپورٹ بعنوان ‘جموں و کشمیر: انسانی حقوق پر لاک ڈائونس کے اثرات اگست 2019 تا جولائی 2020 ‘‘ میں یہ انکشاف کیا ہے ۔21 ممتاز ہندوستانی شہریوں پر مشتمل اس فورم کی قیادت سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکر اور سابق خاتون مذاکرات کار برائے جموں و کشمیر پروفیسر رادھا کمار کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019ء کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے کشمیری عوام ہندوستان اور اس میں رہنے والے عوام سے مکمل طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے کالے قانون ’’یو اے پی اے ‘‘ کے تحت مقدمے درج کئے جاتے ہیں۔ اس میں جموں و کشمیر حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کو ‘آزاد میڈیا’ اور ‘اظہار رائے کی آزادی’ پر حملہ قرار دیا گیا ہے ۔جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ، جن کے تحت غیر مقامی شہری بھی یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں، نے اس یونین ٹریٹری میں بے روزگاری بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے ۔70 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں جاری مسلسل لاک ڈائون کے تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سست رفتار 2G موبائل انٹرنیٹ خدمات کے چلتے آن لائن کلاسیس کا انعقاد ناممکن ہوگیا ہے ۔ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سے شہریوں کی سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیا جس کے نتیجہ میں پورے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ضمانت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا جبکہ مقدمات کی تیزی سے سنوائی کو بھی نامنظور کیا گیا۔ اس کے برخلاف ڈراکونین قانون ، پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال کیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو چیک پوائنٹس پر بریکیٹس لگاکر ہراساں کیا گیا۔ مواصلات پر پابندی عائد کی گئی۔ ان تمام عوامل کا شہریوں کی صحت پر بھی اثر پڑا ۔