کشمیر میں موافق ہند سیاستداں حاشیہ پر کیوں؟

   

برکھا دت
ایک ایسا وقت بھی تھا جب ٹی وی چیانلوں پر جموں و کشمیر کا موضوع چھایا رہتا تھا اور اکثر و بیشتر ٹی وی چیانلوں کے پرائم ٹائم کا یہ پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا۔ ٹی وی چیانلوں کے میزبان یا اینکرس بڑے جوش و خروش کے ساتھ پرزور انداز اور بلند آواز میں اس موضوع کو لے کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ کون محب وطن ہندوستانی ہے اور کون قوم دشمن ہے۔ لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ ان تمام اینکرس نے اپنی تمام تر توانائیوں کا رخ جموں و کشمیر سے ہٹا کر ہماری فلم انڈسٹری یا فلمی صنعت کے مختلف کیمپوں کے درمیان جاری جنگ کو اپنا موضوع بنا لیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ سرخیوں سے کشمیر کی کہانی ہٹادی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ قوم پرستی کے بارے میں بھی وسیع تر نقطہ نظر کو آرکائیوزیا آثار قدیمہ کی نذر کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں خصوصیات کا جہاں تک سوال ہے چاہے وہ عسکریت پسندی ہو یا پھر کشمیر کو ریاست کے درجہ کی بحالی کے لئے آواز اٹھانے والے اہم کھلاڑی ہو اسی طرح کشمیر کے اہم ترین سیاسی قائدین کی طویل مدت سے حراست کا معاملہ ہو یہ انتہائی اہم اور سنگین مسائل ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن چیانلوں پر کی جانے والی گپ شپ اور مباحث میں ان مسائل کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
یقینا کچھ لوگوں نے کشمیر کی خود اختیاری اور خود حکمرانی کے ساتھ مذاق کیا ہے اور دیگر نے نئی دہلی کی تائید کی اور تائید حاصل کی اور ہاں جموں و کشمیر کے سیاست دانوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ سڑکوں پر ان کی تائید کرنے والے بہت کم تھے جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن لاکھ کوششوں اور نوجوان علیحدگی پسندوں کے ساتھ نمٹنے کے باوجود انہیں کچھ حاصل نہ ہوسکا۔

شاہ فیصل نہ صرف ایسے واحد سیاستداں ہیں جنہیں ایک مرحلہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی پسند کیا اور ان کی تائید و حمایت کی لیکن بعد میں انہوں نے خود کا راستہ الگ کرلیا۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ ڈرامائی مثال سجاد لون کی ہے جو علیحدگی پسندوں کے بیٹے اور بھائی ہے، ان کے والد نے اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت سے بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ سجاد لون کے والد کو پاکستان سے الحاق رکھنے والے انتہا پسندوں نے قتل کردیا۔ اس کے باوجود سجاد لون بی جے پی کے قریب جاتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدوار بھی میدان میں اتارے اس طرح وہ ہندوستان کی حمایت میں مزید کئی قدم آگے بڑھے تھے۔ بعد میں انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا بھائی کہا اور کھلے عام بی جے پی سے اتحاد کیا۔ اس طرح سجاد لون کشمیر میں سنگھ پریوار کے حامیوں میں مقبول ہوگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن اہم کشمیری قائدین کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حراست میں لیا گیا تھا اور پھر حال ہی میں ان میں سے بیشتر کی رہائی عمل میں آئی، سجاد لون بھی ان میں شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنی رہائی کے بعد ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس کے برعکس سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے ایک نئی کتاب ’’ہندوستان کل‘‘ میں کئی ایک ریمارکس کئے ہیں۔ اس کتاب کے مصنفین پردیپ چھبر اور ہرش شاہ سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے صاف طور پر کہا کہ انہیں اور ان کے والد اور دیگر کشمیری قائدین کو جس طرح طویل حراست میں رکھا گیا اس سے ان میں غصہ ، برہمی، بوکھلاہٹ، ناراضگی اور تلخی کا احساس پیدا ہوا ہے، اس میں حیرت کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ وہ اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ انہوں نے آخر ایسا کیا کیا اور کشمیریوں کے لئے کیا کرنے پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ عمر عبداللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر جموں و کشمیر کا درجہ ریاست بحال نہیں کیا جاتا تو پھر وہ انتخابی سیاست میں نہیں رہیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کو مرکزی زیر انتظام علاقہ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے نہیں دیکھتا کیونکہ یہ ایک ایسا عہدہ ہے جسے ایک چپراسی کے تقرر کا بھی اختیار نہیں ہوتا۔

بہرحال بی جے پی نے کشمیر کو حاصل خصوصی موقف کالعدم کرتے ہوئے سیاسی فائدہ ضرور حاصل کیا ہے۔ اب وہ اس بات کو یقینی بناچکی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کشمیر کے خصوصی موقف کے بارے میں بات نہ کرے۔ ویسے بھی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کی برخواستگی کے خلاف بے شمار درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور ان درخواستوں کی سماعت کے لئے برسوں لگ سکتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ آرٹیکل 370 کی بحث کو دفن کردیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمیں سیاسی سرگرمی کو کمزور کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ بی جے پی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمہ سے کشمیری کے امور حسب معمول جاری رہیں گے۔ ایک بات یہ ہے کہ کشمیر میں اہم سیاستدانوں کو توہین آمیز رویہ برداشت کرنا پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جموں و کشمیر میں اتحاد و سالمیت ہے تو پھر ہم اس ریاست میں جمہوری اور قانونی طور پر جائز سیاست اور سیاسی عمل کے لئے خوف زدہ کیوں ہے؟