کشمیر نے مسلم قائدین کی کمزوری بے نقاب کردی

   

کیا ہندوستان میں کوئی مسلم قیادت بھی ہے ؟
مسلم قیادت کے دعویدار اسد اویسی کشمیر کیوں نہیں گئے ؟
ارشد مدنی اور محمود مدنی حکومت کے حامی کیوں بنے ؟
اعظم خان کا دورۂ کشمیر سے گریز کیوں ؟
کلب جواد خاموش کیوں ؟
اس لئے کہ سب کی ڈوری حکومت کے ہاتھوں میں ہے

عباس مظفر

مرکزی حکومت نے کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دفعات 370 اور 35A کو ختم کردیا اور حکومت کے اس اقدام کی شیعہ اور سنی مذہبی قیادت نے بھرپور تائید و حمایت کی حد تو یہ ہوئی کہ کوئی بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نے دورۂ کشمیر کیلئے معمولی اجازت کی خاطر سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی زحمت تک گوارا نہ کی ۔
جب وادی کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تمام سرگرمیاں مفلوج کرکے رکھ دی گئیں اس کے بعد سیتارام یچوری کو سرینگر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ انھوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع ہوکر درخواست کی کہ وہ ریاست کو ہدایت جاری کرے کہ وہ اپنی پارٹی لیڈر یوسف تریگامی سے ملاقات اور ان کی مدد کرنے کی اجازت دے تب عدالت عظمیٰ نے اس ضمن میں موزوں ہدایات جاری کرنے سے اتفاق کیا لیکن یہ بھی شرط رکھی کہ سیتارام یچوری اپنے اس دورہ کو خالص غیرسیاسی رکھیں کوئی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔ عدالت نے سیتارام یچوری کو اس انداز میں مشروط اجازت دی جیسے سیاسی سرگرمیاں کوئی جرم ہوں ۔
یہ سب کچھ اس سیاسی قائد کے ساتھ ہوا جو اپنے ایک ساتھی کی خیر خیریت دریافت کرنے ان کی تیمارداری کرتے ہوئے ان کی ممکنہ مدد کرنے کا خواہاں تھا ۔ یہ تو ایک لیڈر کی بات ہے اگر ہزاروں لوگ اسی قسم کی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے تو کیا ہوتا ؟
وادی کشمیر میں تقریباً 80 لاکھ مسلم کشمیریوں کو گزشتہ دو ماہ سے ان کے اپنے گھروں میں محروس کرکے رکھا گیا اس کے باوجود کوئی مسلم مذہبی و سیاسی لیڈر کشمیر کا دورہ کرنے سے گریز کررہا ہے۔ آخر کیوں ایک بھی مذہبی یا مذہبی و سیاسی لیڈر کشمیر کا دورہ کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

کیوں مسٹر اویسی ،کیوں ؟
ہندوستان کے مذہبی و سیاسی رہنماؤں میں آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (AIMIM)کے لیڈر اور پارلیمنٹ میں حیدرآباد کی نمائندگی کرنے والے اسدالدین اویسی اہم اور غیراہم تمام مسائل پر سب سے زیادہ بولتے ہیں ۔ انھیں اپنی قوت گویائی انداز تخاطب پر بڑا ناز ہے اور مسلمانوں کی قیادت کے بڑے دعویدار ہیں لیکن مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی حالت زار پر ان کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ اسداویسی ہندوستان کی تمام مسلم آبادی کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں ان کی آبائی ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش کے ساتھ ساتھ اُترپردیش ، بہار، مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کے بعض علاقوں میں مضبوط موقف حاصل ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت و نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اسد اویسی پر وادی کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا اثر کیوں نہیں ہوا؟
انھوں نے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جارہے سلوک پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں انھوں نے آرٹیکل 370 اور 35A کی برخاستگی کی شدت سے مخالفت کی تھی اس کے خلاف آواز بھی اُٹھائی تھی لیکن پارلیمنٹ کے باہر انھوں نے اس معاملہ میں کیا کیا ؟
انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا …!
آیا تمام ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار اسد اویسی کشمیر کی 80لاکھ مسلم آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے ؟ آخر کس چیز نے اویسی کو کشمیر جانے اور وہاں کے لوگوں کی شکستہ حالی اور قابل رحم حالت دیکھنے سے روکے رکھا ہے ؟
آخر کیوں اسد اویسی اپنے گھر میں محروس کردیئے گئے ان کشمیریوں کی جانب دست تعاون دراز کیوں نہیں کررہے ہیں؟ اویسی خود ایک بیرسٹر ہیں ، قانون کی اونچ نیچ سے اچھی طرح واقف ہیں اس کے باوجود انھوں نے دورۂ کشمیر اور وہاں اپنے لوگوں کی مدد کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے سے گریز کیا ؟ کیوں ؟ آخر کیوں ؟
حالانکہ سیتارام یچوری کی بہ نسبت اس معاملہ میں اسد اویسی کا کیس مضبوط تھا ۔ سیتارام یچوری کو سپریم کورٹ نے تو ان کے واحد پارٹی رفیق سے ملاقات کی اجازت دی تھی جو ایک طرح سے قید تنہائی میں رکھے گئے تھے جبکہ اسد اویسی کے سامنے کشمیری مسلمانوں کی شکستہ حالی تھی ، اُنھیں اس وقت دلاسہ دینے، اُن کی ہمت بندھانے اور حوصلہ دینے کی ضرورت تھی ، وہ چاہتے تو سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر دورۂ کشمیر کی اجازت حاصل کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔ کیوں نہیں کیا ؟ اس بارے میں سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔

اعظم خان بھی ایک قانون داں ہیں :
اب ہم اعظم خان کی جانب چلتے ہیں وہ بھی ایک کوالیفائیڈ قانون داں ہیں اور سما ج وادی پارٹی کا مضبوط مسلم چہرہ بھی ہیں ان کے خلاف اُترپردیش حکومت نے 81 مقدمات درج کر رکھے ہیں اور ان کی قانونی ٹیم ان کے مقدمات لڑ رہی ہے ۔ ان کیلئے دورۂ کشمیر کیلئے عدالت کی اجازت حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ انھیں صرف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے دورۂ کشمیر کی اجازت طلب کرنی تھی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔ آخر کس نے انھیں اور ان کی قانونی ٹیم کو ایسا کرنے سے روکے رکھا؟
موجودہ 17 ویں لوک سبھا کی حلف برداری تقریب کے دوران ارکان کی جانب سے مذہبی نعروں کے استعمال پر زبردست چیخ و پکار کی گئی ،شور مچایا گیا ۔27 مسلم ارکان لوک سبھا میں سے کئی ارکان اپنی مسلم شناخت اور قیادت ظاہر کرنے کیلئے اسلامی نعروں کے استعمال کی حمایت کی ۔لیکن ان میں سے کسی کو کشمیریوں کی حالت زار جاننے کی فکر نہیں ہوئی اور کسی نے بھی وادی کشمیر کا دورہ کرنے حصول اجازت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونا گوارا نہیں کیا … کیوں ؟

کیا یہ 27 مسلم ارکان پارلیمنٹ کشمیر کی 80 لاکھ مسلم آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے ،
محمود ، ارشد مدنی ، دیوبند اور کلب جواد
ہاں غلام نبی آزاد نے یہ کام کیا ، اُنھوں نے کشمیر کا دورہ کیا ویسے بھی وہ خود ایک کشمیری ہیں اور ان کا کشمیر جانا وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کا قیادت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ لیکن ہمارے ممتاز مذہبی رہنماؤں کو کیا ہوگیا ؟
ممتاز مذہبی رہنماؤں میں مولانا محمود مدنی کو ایک خاص مقام حاصل ہے وہ جمعیۃ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری ہیں اور ان کے چچا ارشد مدنی بھی جمعیت کے دوسرے گروپ کے سربراہ ہیں ۔ دونوں چچا بھتیجے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک کثیرآبادی کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ دونوں ملک و بیرون ملک اپنے لاکھوں چاہنے والوں اور حامیوں کیلئے فتوے جاری کرتے ہیں ۔
ایک ایسے وقت جبکہ کشمیریوں کو ان کے گھر وںمیں محروس رکھا گیا تھا جمعیت کا 12 ستمبر کو سالانہ جلسہ ہوتا ہے اور اس میں یہ علماء کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دفعات 370 اور 35A کی برخاستگی سے متعلق حکومت کے اقدام کی تائید و حمایت سے متعلق قرارداد منظور کرتے ہوئے حکمراں جماعت کی نظروں میں اچھا مقام حاصل کرنے کیلئے کئے گئے اس اقدام کے باوجود یہ علماء 80 لاکھ کشمیری مسلمانوں تک رسائی حاصل کرنے اور خالص انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کی کوئی کوشش نہیں کرتے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خالص انسانی بحران ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دیوبند کے ان چچا بھتیجا کی جانب سے دورۂ کشمیر کیلئے سپریم کورٹ میں کوئی درخواست داخل کیوں نہیں کی گئی۔ کیا انھیں اپنے مسلم کشمیری بھائیوں کی حالت زار کی کوئی فکر نہیں ہے ؟
ایک ایسے وقت جبکہ کشمیر میں حالات خراب تھے ارشد مدنی دہلی میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کیلئے جاتے ہیں ۔ ملاقات بتایا جاتا ہے کہ ستمبر کے پہلے ہفتہ میں ہوئی۔

4 ستمبر 2019 ء کو ’’کوئنٹ‘‘ کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں ارشد مدنی نے اس ملاقات کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائی جبکہ ہیڈلائینز میں ان کے حوالے سے بتایا گیا کہ آر ایس ایس ہندو راشٹر یا ہندو ملک کا مطالبہ ترک کرسکتی ہے ۔
ایک ایسا بھی دور تھا جب دیوبند اور ارشد مدنی آر ایس ایس کے سخت خلاف تھے اب وہی ارشد مدنی آر ایس ایس کے ساتھ مل بیٹھنے میں سکون محسوس کررہے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے ایک ہفتہ بعد 12 ستمبر 2019 ء کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی ۔ یہ قرارداد دفعات 370 ، 35A ، طلاق ثلاثہ اور قومی سطح پر این آر سی کی تائید میں تھی ۔ جمعیت کی اس تبدیلی کے پیچھے اصل وجہ یہ بتائی جاری ہے کہ حکومتی ایجنسیاں جمعیت کو بیرونی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں سے ملنے والی مالی امداد یا فنڈس کی چھان بین کررہی ہیں اس کے علاوہ بعض غیرقانونی تعمیرات اور اراضیات پر ناجائز قبضوں کی تحقیقات بھی کی جارہی ہیں ۔ یہ تو رہی ارشد اور محمود مدنی کی بات اس معاملہ میں دہلی جامع مسجد کے شاہی امام احمد بخاری ، بریلی کے اعلیٰ حضرت جیسے سنی مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں نے بھی دورۂ کشمیر کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ ان لوگوں نے کشمیر میں اپنے ہم مذہبوں کی حالت زار دیکھنے ان کی خبرگیری کرنے میں دلچسپی تک ظاہر نہیں کی ۔
دوسری طرف کلب جواد جو خود کو سب سے بڑا لیڈر قرار دیتے ہیں انھوں نے نہ صرف کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دفعات 370 اور 35A کی منسوخی کی تائید و حمایت کی بلکہ اپنے موقف کو منصفانہ بھی قرار دیا جس نے کلب جودا کی بنیادی صلاحیتوں اور سادہ لوحی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ وہی کلب جواد ہے جن کی شیعہ برادری کی ایک اکثریت حمایت کرتی ہے ۔ سیاست ڈاٹ کام کی 6 اگسٹ 2019 ء کی اشاعت کے مطابق کلب جواد نے بیان دیا تھا کہ اب کشمیر کے عوام دوسری ریاستوں کے عوام کو حاصل مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے اور دفعات 370 اور 35A کی منسوخی کشمیریوں کے لئے بہتر ہے۔ کیا تعلیمیافتہ و ذی ہوش شیعہ مسلمان نہیں جانتے کہ آرٹیکل 370 اور 35A جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرتا تھا ۔ کلب جواد نے اس معاملہ میں کشمیر کا دورہ کرنے کی زحمت بھی نہیں کی یا اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کیلئے کچھ کیا جبکہ کشمیر کے 80 لاکھ مسلمانوں میں 30 فیصد شیعہ ہیں۔
اصل میں اعظم خان کی طرح کلب جواد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہیں ۔ ان پر غیرمحسوب بیرونی فنڈس جمع کرلینے خاص طورپر خیرات کے طورپر ایران اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں سے بھیجے جانے والے فنڈس جمع کرنے کے الزامات ہیں ۔ یہ رقومات دراصل ہندوستان میں شیعہ برادری کی بہبود کیلئے بھیجی جاتی ہیں۔
تازہ ترین الزام کلب جواد پر کوئی اور نہیں بلکہ کبھی ان کے دست راست رہے اور اب دوست سے دشمن بنے صدرنشین شیعہ وقف بورڈ وسیم رضوی نے عائد کئے ہیں ۔ انھوں نے کلب جواد پر الزام عائد کیا کہ وہ بیرونی خیراتی فنڈس ملک دشمن سرگرمیوں میں استعمال کررہے ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وسیم رضوی کو کلب جواد کی سفارشات پر شیعہ وقف بورڈ کا صدرنشین بنایا گیا تھا ۔اب کلب جواد نے وسیم رضوی کو اسلام کا دشمن قرار دیا ہے جواب میں وسیم نے کلب جواد پر کرپشن بشمول اراضیات پر ناجائز قبضوں اور شیعہ وقف جائیدادوں کی غیرقانونی فروخت کے الزامات عائد کئے ہیں۔

سیکولر قائدین کیا کررہے ہیں ؟
جاوید اختر ، سعید نقوی ، عارف محمد خان ، شبانہ اعظمی جیسے نام نہاد سیکولر دانشور بھی کشمیریوں کی حالت زار پر خاموش ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا شبانہ اعظمی اور جاوید اختر بیگو سرائے میں کنہیا کمار کی انتخابی مہم چلانے رضاکارانہ طورپر گئے تھے اور وہاں ان لوگوں نے مسلمانوں سے کنہیا کمار کو ووٹ دینے کی اپیل کی تھی ۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک ہم نے کسی بھی مسلم قیادت کو دورۂ کشمیر کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ایسے میں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہندوستان میں کوئی مسلم قیادت بھی ہے ؟ ایسی قیادت جو دیانتداری کے ساتھ ان کے مفادات کا خیال رکھے ۔
آیا 18کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا ان کے مذہبی اور سیاسی رہنما ایک ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے رہیں گے ؟
کیا مسلمانوں کو اپنے ان رہنماؤں کے مفادات حاصلہ نظر نہیں آتے ؟
بشکریہ ’’نیشنل ہیرالڈ‘‘