کشمیر ہمارا ہے تو کشمیری ہما رے کیوں نہیں ؟

   

محمد غوث علی خاموش

قیام امن کیلئے ٹھوس اقدامات ضر وری
کشمیر کے پلوامہ کا بزدلانہ حملہ واقع شدید مذمت والا ہے جو 14 فروری کے دن برف پوش پہاڑیوں کے خوبصورت نظاروں کے درمیان پیش آیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملہ کے ذمہ داروں کو کیف کردار تک پہنچانا نہایت ہی ضروری ہے اور ساتھ ہی کشمیر میں صد فیصد امن کو برقرار رکھا جانا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جتنا کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے اتنے ہی کشمیری عوام بھی ہما رے ملک کا گراں حصہ ہیں اور یہ آج شورش کے درمیان خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے پر مجبور ہیں۔ پلوامہ حملہ کے ذمہ دار تمام کشمیری تو نہیں ہیں تو پھر انہیں نفرت کا نشانہ بنانا کہاں تک درست رہے گا۔ جموں میں بجرنگ دل ۔ وشواہندو پریشد جس قدر نفرت انگیز کارستانی انجام دے رہے ہیں اس سے تو کشمیر کا امن غارت ہوکر رہ جائے گا اور دشمن ممالک کا مقصد بھی تو یہی ہے کہ کشمیر یوں ہی ہمیشہ جلتا رہے اور شورش کا بازار ہر وقت گرم رہے۔ جموں میں تو دہشت گردانہ حملہ کے بعد مسلمانوں پر ہورہے حملہ اور املاک کی تباہی ، گاڑیوں کو نذر آتش کیا جانا یہ تمام کام پولیس کی آنکھوں کے سامنے انجام دیئے جارہے ہیں، کیا یہ بھی ایک طرح کی زعفرانی دہشت گردی نہیں ، ایسے ہی رویہ سے آج تک کشمیر اپنی آغوش میں سرد برف پوش پہاڑیوں کو رکھ کر بھی نفرتوں کی آگ کو بجھانا سکا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں پر حملہ کشمیر کی جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کے برابر ہیں۔ امن کو یقینی بنانے کیلئے غیر معمولی صبر و تحمل کی شدید ضرورت ہے ، کشمیری عوام کو خوف و ہراس کے حوالے کرتے ہوئے امن کو ہرگز قائم نہیں کرسکتے۔ آج دلی۔ بنگلور اور کئی شہروں میں کشمیری نوجوانوں کو جھوٹے الزام لگا کے زد و کوب کیا جارہا ہے اور پولیس بھی حالات کے پیش نظر جھوٹ کی تائید کرنے کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کررہی ہے ، بے گناہ نوجوان کشمیر کا ہو یا پھر کروکشترا کا ہو ، غیر ضروری اسے اکسا کر امن کی امید رکھنا ٹھیک نہیں۔ جموں میں کٹر ہندو توا حامیوں کے حملہ سے تو کشمیری عوام پر غیر ضروری نفرت کا اظہار کرنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں ، جس سے لگتا ہے کہ کشمیر سے جتنی محبت ہے اتنی محبت کشمیریوں سے نہیں ۔ اگر یہ رویہ سلسلہ برقرار رہا تو کشمیر کی آگ کو آسمان سے گرتی برفیلی بارش بھی بجھا نہیں سکتی۔ اس کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے جو حکومتوں کو کرنے ہیں۔ جو نفرت آمیز حرکات سے نہیں محبت بھرے اقدامات سے ممکن ہے اور ایسے اقدامات کیلئے بی جے پی کتنی سنجیدہ ہے، صرف اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس محترمہ محبوبہ مفتی کے ساتھ کشمیر کی حکومت کا حصہ بن کر آخر میں ساتھ چھوڑدیا۔ کیا مرکز کی ذمہ داری نہیں تھی کہ قیام امن کی راہ ہموار کرے ، ہاتھ آئے موقع کو بھر پور استعمال کر کے وادی میں امان کو یقینی بنائے مگر بی جے پی کا مقصد شائد وادی کشمیر میں امن و امان کو مستقل طور پر برپا کرنا نہیں تھا ۔ اسی لئے ہاتھ آیا موقع گنوا دیا اور تو اور صدر راج کے بعد بھی مرکز نے اپنی ذمہ داری جس طرح نبھانی تھی نہ نبھاتے کشمیر میں امن کو مشکل کردیا ۔ اب تو پلوامہ کے سانحہ سے بی جے پی اور ہندوتوا شرپسندوں کو ایک طرح کی چھوٹ مل گئی ہے کہ جہاں مسلمان نظر ائے اس پر حملہ کردو اور یہ الزام لگادو کہ یہ بندہ ملک کے ترنگے کو پیروں تلے روند رہا تھا ۔ ملک کے خلاف نعرے بلند کرتے پا کستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا ۔ راقم الحروف یہ تمام باتیں ملک کے محتلف علاقوں میں پیش آنے سے ہی رقم کر رہا ہے جس کو روکنے کیلئے بھی حکومت کو مکمل اقدامات کرنے چاہئے اور نفرت کو ترک کرکے کشمیری عوام کا سہارا بننے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیریوں کے اندر خود کو تنہا محسوس کرنے کا احساس ختم ہوجائے اور سارا بھارت کشمیریوں کے ساتھ ہونے کا قوی احساس ان کے اندر پیدا ہو ، اس کے برعکس منفی سوچ رکھتے کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ کہتے ، کشمیریوں کی پرواہ نہ کیا جانا محبت نہیں بلکہ سیاسی سازش کہلائے گی جو قدرت کی طرف سے کھڑے برفیلے پہاڑوں کو نفرت کی آگ پگھلاکر بہا رہی ہے، اسے رو کنے کا وقت آچکا ہے ورنہ کشمیر کی آغوش سے امن ہمیشہ کیلئے نکل جائے گا ۔ بی جے پی 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات کو ذہن میں رکھنے پلوامہ کے حملہ کو کامیابی کا زینہ بنانے کی کوشش نہ کرے اور نہ اپنے شرپسندوں کے ذریعہ کشمیری حملہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرے بلکہ مرکز کی ناکامی اور لاپرواہی کو سدھارے اور کشمیر کا شور ملک کے تمام حصوں میں پھیلانے سے باز رہے کیونکہ بی جے پی ایسے وقتوں کا استعمال کرنے کا 2002 ء سے ہنر رکھتی ہے کیونکہ مودی کے سیاسی عروج کا اسی سال کے شورش کے ساتھ ہی آ غاز ہوتا ہے ، ملک میں کہیں بھی شورش ہو مسٹر مودی اس میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں۔ جتنا درد ملک کی عوام کو پلوامہ کے حملہ سے محسوس ہوا اتنا درد و فکر بی جے پی قائدین میں دیکھنے میں نہ آنا ہی بی جے پی کی کشمیر پا لیسی سے متعلق احساس دلاتی ہے ۔ اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے اور بی جے پی قومی صدر امیت شاہ اپنا دورہ جاری رکھتے ہیں اور کرنا ٹک میں زوردار تقریر صرف مندر پر خطاب کرتے اپنی پارٹی کا ایجنڈہ عوام کو بیان کرتے ہیں ، انہیں ملک کی سالمیت سے کوئی پرواہ ہے اور نہ ملک کے شہید سپاہیوں کی فکر ہے ، فکر ہے تو صرف دوبارہ اقتدار کی ہے اس لئے اتنے بڑے حملہ کے بعد بھی مسٹر امیت شاہ کا سیاسی کارواں چلتا رہا ۔ سارا ملک غم میں ڈوبا ہوا تھا اور امیت شاہ رام مندر پر خطاب فرما رہے تھے ، ان کے علاوہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ جو خود کو واحد دیش بھکت سمجھتے ہیں، یہ بھی صوبہ کیرالا میں اپنا خطاب جاری رکھا اور مسٹر پیوش گوئل اپنا دورہ ٹاملناڈو منسوخ نہ کرسکے ۔ سب سے شرمناک حرکت تو یہ رہی کہ منوج تیواری دلی کے ایک ڈانس پروگرام میں ناچتے رہے۔ پلوامہ میں دیش کے سپاہی اپنی زندگیوں کو پل بھر میں کھودیا اور اس کا بی جے پی قائدین پر کوئی اثر نہیں، اس سے تعجب کی بات ایک اور یہ ہے کہ کشمیر میں شہید سپاہی کے جسد خا کی جب لکھنو لایا گیا تو ہزاروں عوام شہید کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے تو بی جے پی رکن پارلیمان ساکشی مہاراج کسی سے بات کرتے مسکراتے ، ہنستے دیکھے گئے اور مرکزی وزیر شہید و سنت کمار کے تابوت کے قریب کھڑے رہ کر سیلفی لیتے اسے سوشیل میڈیا میں پوسٹ کرتے ہیں ، یہ ہے بی جے پی قائدین کی دیش بھکتی، شہیدوں کی آخری رسومات میں شریک ہونے کی تک انہیں تمیز نہیں اور یہ ملک کو ترقی دیں گے ۔

وہاں موجود ہزاروں لوگوں نے ساکشی مہاراج کی ہنسی اور مرکزی وزیر کی سیلفی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ ملک کے اندر اتنا بڑا دہشت گرد حملہ ہوتا ہے ۔اور اس میں شہید جوانوں کی آخری رسومات میں بی جے پی قائدین کے چہروں پر مسکراہٹ ، دنیا بھر کے ممالک کو کیا پیغام جاتا ہوگا کہ عوام کی آنکھیں نم اور نمائندوں کے چہرں پہ خوشی ، ایسی مزاج والے حکمرانوں سے ملک میں امن ممکن نہیں ۔ شدت سے صرف دھارمک کا احساس رکھنے والوں کو ملک کی کروڑوں عوام سے اس کی سالمیت سے کوئی واسطہ نہیں ، انہیں تو بس نفرتوں کے سہارے اقتدار تک رسائی کا ہنر آتا ہے ، جس کو ملک کی عوام محسوس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے ، ایسے میں نیم دور اندیش حکمرانوں سے ملک کو مزید خطرہ لاحق ہے ۔ جو شہیدوں سے متعلق بھی منفی نظریہ رکھتے ہوں ، ان سے اقتدار پر رہ کر انصاف کی امید کرنا پتھر سے سر ٹکرانے کے برابر ہے کیونکہ بہار صوبہ کا مجاہد خان جو جموں و کشمیر کے کرن نگر علاقہ میں انکاونٹر کے دوران شہید ہوا ۔ اس مسلمان سپاہی کے جنازے میں بہار کے کسی سیاستداں کو وقت نہ ملا کہ شرکت کر کے اسے خراج عقیدت پیش کرسکے ۔ دیش کیلئے جان نچھاور کرنے والے جوانوں کے تعلق سے حکمرانوں ، سیاستدانوں کا یہ رویہ ملک کی عوم کو فوراً بیدار ہونے کیلئے کافی ہے ، کشمیری عوام کو بھی اس وقت مکمل تحفظ کے یقین کی ضروری ہے جو ہماری ذمہ داری ہے، ورنہ عدم تحفظ کا احساس ، ظلم و زیادتی ، تنگ نظری ، فرقہ پرستی سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوگا ۔ دہشت گرد حملہ کو بھی سیاسی رنگ دیا جانا اور بے قصور عوام پر حملہ کا غصہ اتارنا ایک اور شورش کو پیدا کرنے کے مترادف رہے گا ۔ جتنا کشمیر بھارت کی روح ہے اس کی آغوش میں بسنے والے عوام بھی ملک کی جان ہے اور ان کا تحفظ بھی سب کی ذمہ داری ہے ان کو نشانہ بنا کر ان کے اندر کے جذبہ حب الوطنی کو مجروح کرتے رہنا بھی دہشت گردی کہلائے گی ، جس کے ذریعہ سے ہی حالات شورش زدہ ہوتے ہیں ۔ دہشت گردوں کے نقش قدم پر نہ چلنا ہے اور نہ کسی کو چلنے دینا ہے تب ہی تو کشمیر میں امن کا قیام ممکن ہوسکتا ہے، ورنہ بھارت کے اندر جنت جیسا علاقہ کشمیر رہ کر بھی بے معنی ہوگا جس کا نام سن کر ہی لوگ چونک پڑیں۔ اسی لئے کشمیر میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ضروری ہیں تاکہ وہاں کی عوام کو بھی یہ احساس ہو کہ یہ بھارتی ہیں اور انہیں مکمل امان فراہم کرنا بھارت کی ذمہ داری ہے کیونکہ کشمیر ہمارا ہے اور کشمیری بھی ہمارے ہیں۔