کمل ناتھ حکومت کی آزمائش

   

روشنی کی خاطر اب معرکہ بھی ہونا ہے
اور زخم کھانے کا فائدہ بھی ہونا ہے
کمل ناتھ حکومت کی آزمائش
سیاستدانوں کو اپنے مستقبل کی فکر نے محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنے اور ان پناہ گاہوں کے بے غیرت مکین ہوکر رہنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ مدھیہ پردیش کانگریس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش کا حصہ ہے۔ کانگریس کے بارے میں سیاستدانوں کواپنی ہی پارٹی کی بقاء پر شبہ ہونے لگا تو وہ بی جے پی میں خود کو ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگے ۔ کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونے اور رکن اسمبلی بن جانے کے بعد ان ارکان کی پارٹی سے بغاوت صرف محفوظ سیاسی مستقبل کا لالچ ہے ۔ کانگریس پارٹی کے اندر جس طرح کی تبدیلیاں وقوع ہورہی ہیں وہ ایک قومی پارٹی کیلئے ٹھیک نہیں۔ بی جے پی نے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو اپنی پناہ میں لیکر ان کو سیاسی استحکام دینے کی کوشش کی ہے لیکن سیاست میں کوئی بھی لمحہ پائیدار نہیں ہوتا کیونکہ آج ایک لمحہ کانگریس کے لئے بھاری ہے تو کل بی جے پی کے لئے یہی لمحہ تباہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پارٹی قائدین کی دَل بدلی کا چلن کوئی نئی بات نہیںہے لیکن مدھیہ پردیش کی سیاست میں بی جے پی نے جس مکروہ طریقہ سے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو اپنی صف میں گھسیٹا ہے وہ افسوسناک ہے۔ کانگریس سے 18 سال تک وابستہ رہنے کے بعد مدھیہ پردیش کے مہاراجہ لقب کی حامل سیاسی طاقت مادھو راؤ سندھیا کے فرزند جیوترآدتیہ سندھیا نے کانگریس میں سیاسی مستقبل روشن دکھائی نہیں دیا تو بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا۔ ان دنوں کورونا وائرس نے عوام کو ہاتھ ملانے سے رُوک دیا ہے لیکن سیاسی وائرس نے تو غدار یا باغی ہاتھوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا تو حوصلہ بخشا ہے۔ زعفرانی کھنڈوا پہن کر جیوترآدتیہ سندھیا نے راجیہ سبھا کے لئے بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ سندھیا کے اس فیصلے کے بعد وسندھرا راجے نے اسے گھر واپسی قرار دیا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ مدھیہ پردیش کا مہاراجہ خاندان شروع سے ہی زعفرانی پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا۔ 1975 میں جس وقت اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی انہی دنوں راج ماتا وجئے راجے نے اپنے بیٹے مادھو راؤ کو بھی کانگریس چھوڑ کر سنگھ پریوار میں آنے کی صلاح دی تھی۔ مادھو راؤ سندھیا یا جیوتر آدتیہ سندھیا کا خاندان شروع سے ہی زعفرانی محاذ کا وفادار رہا ہے۔ اب سندھیا نے کانگریس سے طویل عرصہ وابستہ رہنے کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے تو اس میں حیرت کی بات نہیں ہے۔سندھیا کا یہ فیصلہ کانگریس کے لئے شدید دھکہ ضرور ہے مگر اس طرح کے قائدین کانگریس میں رہ کر بھی پارٹی کیلئے کچھ کام نہیں کرتے تھے ان کا الگ ہوجانا بھی کانگریس کے لئے اچھا ہی ہوا۔ اب جبکہ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ زیر قیادت کانگریس حکومت کو اکثریت ثابت کرنے کیلئے گورنر نے ہدایت دی ہے لیکن چیف منسٹر کمل ناتھ نے کورونا وائرس کے حوالے سے ایوان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ٹال دیا ہے۔کمل ناتھ نے گورنرسے ملاقات کرکے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اپوزیشن بی جے پی کو اس بارے میں شک ہے تو اسے تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ کمل ناتھ حکومت کے پاس ارکان کی تعداد کم ہونے کے باوجود فلور ٹسٹ کی آزمائش کا مرحلہ ناکام ہوجائے تو یہاں بی جے پی حکومت بن پائے گی۔؟ بی جے پی نے اُصولی اور غیر اُصولی طریقہ سے ایک منتخب حکومت کو گرانے کیلئے حربے استعمال کئے ہیں تو یہ چلن جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں انتہائی نقصاندہ ہے۔ طاقت کے بَل پر یا دولت کے سہارے ارکان اسمبلی کو خریدنا اور حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی غیر قانونی اور غیر دستوری ہونے کے ساتھ اسے سیاسی غیر اخلاقی بھی کہا جاتا ہے۔بی جے پی ہمیشہ ہی سے اس طرح کی ترکیبیں کرنے کے لئے بدنام ہے ۔ کسی بھی ریاست میں اپنی حکومت کو قائم کرنے کیلئے غیر اُصولی طریقہ پر عمل کرے گی تو یہ سیاسی سطح کا سب سے افسوسناک المیہ ہے جو ملک کے مستقبل کے لئے ٹھیک نہیں۔ بی جے پی کو اقتدار سے محرومی کے بعد عوام کے خط اعتماد کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی ورنہ وہ عوام کی ہمدردی سے دھیرے دھیرے محروم ہوجائے گی۔