کنہیا کمار بمقابلہ گری راج کروڑہاہندوستانیوںکی نظریں بیگو سرائے پر

   

سی این مشرا
بہار بیگو سرائے پارلیمانی حلقہ میں اس مرتبہ لوک سبھا انتخابات کے دوران دو سخت مخالفین، دائیں بازوکے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے گری راج سنگھ اور کمیونزم کی کمزور پڑتی ساکھ کو دوبارہ مضبوط کرنے کی امید بن کر ابھرے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی) کے کنہیا کمار کے درمیان دلچسپ مقابلہ کے علاوہ مہاگٹھ بندھن امیدوار تنویر حسن کی آمد کی وجہ سے ہو رہے سہ رخی مقابلے پر پورے ملک کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ قومی شاعر رام دھاری سنگھ دنکرکی جائے پیدائش بیگو سرائے میں لوک سبھا انتخابات میں گری راج سنگھ اور کنہیا کمار میں براہ راست مقابلہ مانا جا رہا تھا، لیکن پانچ پارٹیوں کے مہاگٹھ بندھن کی جانب سے آر جے ڈی کے تنویر حسن کو امیدوار بنائے جانے سے یہاں مقابلہ سہ رخی اور دلچسپ ہو گیا ہے۔ مہاگٹھ بندھن نے اپنا امیدوار اتارکر بیگو سرائے میں بی جے پی مخالف ووٹ حاصل کرنے کے کنہیا کی حکمت عملی کو ایک طرح سے دھکا لگایا ہے اب بی جے پی مخالف ووٹ آرجے ڈی اور سی پی آئی کے درمیان تقسیم ہو سکتے ہیں۔
اس نشست پر بی جے پی، سی پی آئی اور آر جے ڈی تینوں اپنے امیدوار کی جیت یقینی بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں۔گری راج سنگھ کے حق میں بی جے پی کے اسٹار پرچارک جم کر روڈ شو اور ریلیاں کرچکے ہیں۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے حال میں انتخابی ریالی کی، وہیں بہار کے نائب چیف منسٹر سشیل کمار مودی اور بی جے پی کے دیگر سینئر لیڈروں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ دوسری جانب کنہیا کی تشہیر کے لئے طالب علمی کے دوران سیاست کے آزمائے گئے چھوٹے چھوٹے ذرائع کا استعمال کر چکے ہیں ۔کنہیا دن کو ریلیاں تو رات کو نکڑ ناٹک کے ذریعے ووٹ مانگے ہیں۔ ان نکڑ ڈراموں میں اچھی خاصی بھیڑ ہوتی تھی ۔ مہم کے دوران کنہیا گھر گھر جا کر جہاں بزرگوں سے آشیرواد لیتے رہے وہیں نوجوانوں کے درمیان ان کے ساتھی بنتے رہے۔ بیگو سرائے علاقے کے بزرگوں کو کنہیا میں ملک کی سیاست کا چمکتاستارہ دکھائی دے رہا ہے تو نوجوانوں کو ایک ایسا ساتھی جو تمام بندشیں توڑکر انہیں ساتھ لے کر چلنے کی ضد میں ہے ۔کنہیا کا کارواں جے این یو، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھیوں کے ساتھ ڈفلی کی تھاپ پر تھرکتا بھی رہا ہے اور زمینداروں اور سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی کے لئے للکارتا بھی رہا ہے ۔ وہ آدھی آبادی کے لئے بھی ،خواتین مانگے آزادی وہ بھی آدھی۔ آدھی، جیسے نعرے بھی لگاتا رہا ہے ۔کنہیا کے انتخابی مہم کوبالی ووڈ کا بھی ساتھ رہا ہے ۔ نغمہ نگار جاوید اختر کے علاوہ اداکارہ شبانہ اعظمی اور سورا بھاسکر اور اداکار پرکاش راج کنہیا کے حق میں تشہیرکر چکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں سیاست میں نئی لکیرکھینچ رہے کنہیا ایک ایسے آئیکان بن گئے ہیں کہ ان کو ترجیح دینے سے میڈیا بھی خود کو نہیں روک پا رہا ہے ۔ قومی ٹیلی ویژن چینلز اور پرنٹ میڈیا کے سینئر اور نامور صحافی بیگو سرائے کا چکر لگاچکے ہیں۔ وہیں آر جے ڈی امیدوار تنویر حسن کے حق میں مہاگٹھ بندھن کے اسٹارکمپینر اور بہار اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر تیجسوی یادو کے علاوہ دیگر رہنما بھی زور لگا تے رہے ہیں۔اس علاقے میں کبھی کبھی سخت مخالف نظریات کا تصادم بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ مخالف نظریہ کے لوگ کنہیا کو سیاہ پرچم بھی دکھا رہے تھے۔ ایک روڈ شو کے دوران کورائے گاؤں میں کنہیا کو نہ صرف سیاہ پرچم دکھائے گئے بلکہ ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ اس کے بعد دونوں فریقوں میں تصادم اور مارپیٹ بھی ہوئی ۔ معاملہ تھانے بھی پہنچا اور ایف آئی آر بھی درج ہوئی۔ان نشیب و فراز کے درمیان بیگو سرائے میں چوتھے مرحلے میں29 اپریل کو رائے دہی ہوگئی۔ اس نشست پر بی جے پی، سی پی آئی اور آر جے ڈی کے درمیان دلچسپ مقابلے کے آثار بنے ہیں۔ ان تین پارٹیوں کے پاس اپنا اپنا بنیادی ووٹ بینک ہے ۔ آر جے ڈی کے مضبوط میرا (مسلم یادو) کے سہارے تنویر حسن میدان میں ہیں۔ ووٹوں میں نقب لگانے میں کنہیا کا ٹکراؤبراہ راست تنویر حسن سے ہے ۔
یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ کنہیا اگر مہاگٹھ بندھن کے امیدوار ہوتے تو بی جے پی کو سخت چیلنج دے سکتے تھے لیکن ایسا ہوا نہیں لہذا گری راج سنگھ کو فوری طور پر راحت ملتی نظر آرہی ہے ۔ کبھی کانگریس اورکمیونزم کا مضبوط گڑھ رہے بیگو سرائے نشست پر2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی امیدوار بھولا سنگھ نے پہلی مرتبہ کمل کھلایا تھا۔ انہوں نے آر جے ڈی کے تنویر حسن کو سخت مقابلے میں 58335 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی ۔ سی پی آئی کے راجندر پرساد سنگھ تیسرے نمبر پر رہے تھے ۔ اس سے پہلے 2009 میں جنتا دل متحدہ کے امیدوار ڈاکٹر مناظر حسن نے سی پی آئی کے قدآور لیڈر شتروگھن پرساد سنگھ کو شکست دی تھی۔ مسٹر بھولا سنگھ 2009 میں نوادہ سیٹ پر جیت درج کی تھی۔ وہیں2014 میں این ڈی اے سے جے ڈی یو کے باہر ہونے پر بی جے پی نے گری راج سنگھ کو نوادہ اور بھولا سنگھ کو بیگو سرائے سے ٹکٹ دیا تھا۔ دونوں لیڈر پارٹی کی امیدوں پر کھرے اترے اورشاندار جیت درج کی۔ سال2018 میں بھولا سنگھ کے انتقال کے بعد یہ نشت خالی ہو گئی۔بیگو سرائے ضلع میں حد بندی سے پہلے دو لوک سبھا حلقے بیگو سرائے اور بلیا تھے ۔ سال2009 میں حد بندی کے بعد دونوں لوک سبھا حلقے کو ملا کربیگوسرائے بنا دیا گیا۔ حد بندی سے پہلے ایک دو مواقع کواگر چھوڑ دیا جائے تو بیگو سرائے نشست پر کانگریس اوربلیا نشست پر کمیونسٹوں کا قبضہ رہا ہے ۔ اس نشست سے 1952 تا 1962 کانگریس کے متھرا پرساد مشرا نے مسلسل تین مرتبہ جیت درج کی۔ سال1967 میں سی پی آئی کے یوگیندر شرما یہاں سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ۔ سال1971 اور 1977 میں شیام نندن مشرا ایک مرتبہ کانگریس ( سنگٹھن ) اور دوسری مرتبہ بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ بنے ۔ سال1980 اور1984 میں کانگریس کی کرشنا شاہی نے دو مرتبہ جیت درج کی۔ سال1989 میں جنتا دل کے للت وجے سنگھ جیتے تو1991 میں پھر کرشنا شاہی کو کامیابی ملی۔ سال 1996 میں آزاد امیدوار رامیندر کمار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ سال 1998 اور1999 میںکانگریس کے راجو سنگھ کوکامیابی ملی ۔ سال2004 میں جے ڈی یو کے راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ اور سال2009 میں جے ڈی یو کے ہی ڈاکٹر مناظر حسن نے کامیابی حاصل کی۔بیگو سرائے لوک سبھا نشست کے تحت سات اسمبلی حلقہ چیریا بریارپور، بچھواڑہ، تیگھڑا، مٹھانی، صاحب پور کمال، بیگو سرائے اور بکھری (میزروڈ) شامل ہیں۔ سال 2015 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد سے بی جے پی کو شکست کھانی پڑی تھی اور کسی بھی نشست پر بی جے پی کا کھاتہ نہیں کھل سکا تھا۔ آرجے ڈی تین اور کانگریس جے ڈی یو نے دو دو نشستیں جیتیں تھیں۔ اس لوک سبھا حلقہ کے تحت آنے والی سات اسمبلی نشستوں میں سے چیریا بریارپور سے سابق وزیر منجو ورما (جے ڈی یو)، بچھواڑہ سے رام دیو رائے (کانگریس)، تیگھرا سے وریندر کمار (آر جے ڈی)، متھی ہانی سے نریندر سنگھ عرف بوگو سنگھ (جے ڈی یو)، صاحب پور کمال سے نارائن یادو (آر جے ڈی)، بیگو سرائے سے انیتا بھوشن (کانگریس) اور بکھری (محفوظ) سے اپیندر پاسوان (آر جے ڈی) رکن اسمبلی ہیں۔بنیادی طور پر بیگو سرائے لوک سبھا حلقہ زراعت اور گلہ بانی پر منحصر ہے ۔ ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں میں سے ایک کنورجھیل اسی علاقے میں ہے۔ اس علاقے میں عوامی شعبہ کی سب سے بڑی تیل کمپنی انڈین آئیل کارپوریشن لمیٹڈ کا برونی آئل ریفائنری فیکٹری، برونی تھرمل پاور اسٹیشن اورہندوستان فرٹیلائزر لمیٹڈ فیکٹری اہم ہیں ۔ برسوں پہلے یہاں کئی چھوٹی بڑی صنعتیں بھی تھیں جو آہستہ آہستہ بند ہوگئیں۔ یہاں برونی ریفائنری کی صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ کھاد فیکٹری کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے ۔ دریائے گنگا پر سمریا کے قریب چھ لین پل، سمریا سے کھگڑیا تک چار لین سڑک کی تعمیر زوروں پر ہے۔گڑی یارا یارڈ کی خالی پڑی زمین پر ریلوے فیکٹری کھولنے ، برونی ۔ حسن پور ریلوے لائن بنانے ، پیٹرو، فوڈ پروسیسنگ پلانٹ اور دنکر یونیورسٹی بنانے کی مانگ بنیادی مسائل ہیں۔