کوئی قانونی کاروائی نہیں کریں گے‘ وہ میرا مقدرتھا۔ عبدالغنی غونی

,

   

اپنے آبائی شہر پہنچنے کے بعد غونی جامعہ مسجد گئے اور نماز شکرانہ ادا کی۔ بعدازاں وہ قبرستان اپنے والدین کی قبر پر پہنچے۔ جہاں پر وہ اپنی ماں کے قبر پر زار وقطار رونے لگے جس کا بے چینی کے ساتھ ان کی رہائی کے انتظار کے دوران تین سال قبل انتقال ہوگیاتھا

بھادیدرواہ۔جیل میں 23سال گ ذارنے کے بعد 57سالہ عبدالغنی غونی منگل کے روز رہا کئے گئے۔سنوائی کے دوران تین ریاستوں کی پولیس ان پر عائد الزامات میں ناکامی کے بعد انہیں بری کردیاگیا۔

جئے پور سنٹرل جیل میں دیگر پانچ لوگوں کے ساتھ 23سال گذارنے کے بعد انہیں رہا کردیاگیاتھا

 

راجستھان ہائی کورٹ نے انہیں ساملیتی دھماکہ معاملہ میں بری کیا ہے۔ عدالت نے مانا کہ پراسکیویشن سازش کے شواہد پیش کرنے اور اصلی ملزم ڈاکٹر عبدالحمید جس کے لئے سنائی گئی سزائے موت پر عدالت نے روک لگادیا ہے سے ان کے روابط ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور عدالت نے انہیں بری کردیا۔

عبدالغنی غونی کا تعلق جموں کشمیر کے بھادوراہ ٹاؤن سے اور وہ ایک تنظیم اللہ والی سے وابستہ تھے جس کے ممبرس مذہبی تبلیغ کے متعلق کام کرتے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی شائع خبر کے مطابق غونی نے 1996کے دن پیش ائے اس ہولناک دن کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ وہ دہلی میں بنگالہ والی مسجد کو جارہے تھے پھر وہاں سے دس سے پندرہ لوگوں پر مشتمل وفد کے ساتھ وشاکھاپٹنم گئے۔

چالیس دن گذارنے کے بعد وہ دہلی جانے والے سمتا ایکسپریس میں 30مئی کے روز سوار ہوگئے۔ ایک اسٹیشن پر کچھ لوگ ٹرین میں ائے اور مسافرین سے ان کے نام پوچھنے لگے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ وہ جموں او رکشمیر ہیں تو ان کی اندھا دھند گرفتار عمل میں لائی گئی۔

غنی نے مزید کہاکہ اگلے صبح انہیں معلوم ہوا کہ وہ شاہی باغ اے ٹی ایس دفتر احمد آباد میں ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیاکہ بے قصور ہونے کے احساس کے باوجود مجھے کشمیر ی ہونے کی وجہہ سے دہلی (لاج پت نگر) دھماکہ میں ماخوذ کیاگیا۔غنی کو چودہ دنوں کا ریمانڈ میں بنا کسی جج کے روبر و پیش کئے رکھاگیا۔ انہیں پاکستانی شہری بتایاگیا‘ انہیں سابر متی جیل بھیجا گیا۔

انہوں نے کہاکہ۔انہوں نے کہاکہ افسران جانتے تھے میں بے قصور ہوں مگر حقیقی مجرم گرفتار ہونے تک انہوں نے اپنی تحویل میں رکھا۔ سال2010میں جب انہیں لاج پت نگر بم دھماکہ میں بری کردیاگیاتو راجستھان پولیس نے انہیں ساملیتی دھماکہ کیس میں پوچھ تاچھ کے لئے اپنی تحویل میں لے لیا۔

سال2014میں سنوائی کرنے والی عدالت نے پانچ لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ انہوں نے راجستھان ہائی کورٹ میں اپیل کی جس پر اسی ہفتہ فیصلہ سنایاگیا۔گرفتاری کے وقت غونی کی عمر34سال تھی۔ وہ جموں کشمیر یونیورسٹی کے بی ایس سی گریجویٹ ہیں۔

سنوائی کے دوران ان کی زندگی تباہ ہوگئی‘ بشمول والدہ کئی قریبی رشتہ داروں کو انہوں کھودیا‘ ماں کی تدفین میں شامل ہونے کے لئے بھی انہیں سپریم کورٹ سے پیرول نہیں ملی۔

عبدالغنی غونی جن کی عمر اب57سال کی ہے وہ اس غلط اقدام پر کوئی قانونی کاروائی کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ان کا کہنا ہے یہ ان کی قسمت کا لکھا تھا۔ انہو ں نے کہاکہ ”اللہ تعالی چاہتے تھے کہ میں جیل میں اپنے ساتھی قیدیوں کو سبق دے سکوں“۔

نیو انڈین ایکسپریس میں شائع خبر کے مطابق اپنے آبائی شہر پہنچنے کے بعد غونی جامعہ مسجد گئے اور نماز شکرانہ ادا کی۔ بعدازاں وہ قبرستان اپنے والدین کی قبر پر پہنچے۔ جہاں پر وہ اپنی ماں کے قبر پر زار وقطار رونے لگے جس کا بے چینی کے ساتھ ان کی رہائی کے انتظار کے دوران تین سال قبل انتقال ہوگیاتھا