کورونا وائرس اور سارک ممالک

   

کیا غم کے تقاضے ہیں سمجھ میں نہیں آتے
دل اپنے سے بیگانہ ہوا آپ کی خاطر
کورونا وائرس اور سارک ممالک
کورونا وائرس نے سارک ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سارک اقوام سے خطاب کرتے ہوئے کورونا وائرس کی سنگینی پر توجہ دلائی ۔ انہوں نے وائرس کے خلاف چوکسی اختیار کرنے اور فنڈس کو مجتمع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ سارک ملکوں کے ساتھ خاص کر پاکستان کے سامنے وزیراعظم مودی نے اس وباء کا سختی سے مقابلہ کرنے کی اہمیت کا مسئلہ پیش کیا تو پاکستان نے کشمیر کے مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے جموں و کشمیر میں سختیوں کو ختم کرنے پر زور دیا تاکہ کورونا وائرس کے خطرہ سے نمٹا جاسکے ۔ وزیراعظم نے اس وائرس سے نمٹنے کے لیے 10 ملین ڈالر ہنگامی فنڈ کے قیام کی تجویز رکھی ۔ سارک ملکوں نے بھی وزیراعظم مودی کی تجویز پر اثباتی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وائرس کا مشترکہ مقابلہ سے اتفاق کیا ۔ یہ برصغیر میں ہونے والی مثبت تبدیلی ہے ۔ تمام ملکوں کو مل کر ہی ایک مشترکہ جدوجہد شروع کرنا ناگزیر ہوگیا ہے کیوں کہ کورونا وائرس نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ ساری دنیا کے تقریباً ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔ سارک وزارتی سطح کا گروپ تشکیل دیتے ہوئے کورونا وائرس سے مربوط مسائل سے نمٹنے کی پہل کی جانی چاہئے ۔ وزیراعظم بھوٹان نے بھی اس خطہ کے تمام ممالک کے لیے بروقت کام کرنے کو مثبت قدم قرار دیا ۔ جب تک تمام ملکوں کو مل کر کسی ایک اسٹراٹیجک منصوبہ نہیں بنایا جاتا ، کسی بھی قسم کے آفات سے نمٹنے میں موثر اقدامات ممکن نہیں ہیں ۔ سارے ملکوں کو دنیا کی بڑی یوروپی یونین کی طرح متحد ہونا چاہئے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بعض مسائل پر سارک ممالک خود کو دور رکھتے ہیں ۔ یوروپی یونین ایک بڑا گروپ ہے جب کہ سارک گروپ سری لنکا ، مالدیپ ، نیپال ، بھوٹان ، بنگلہ دیش ، افغانستان ، پاکستان اور ہندوستان پر مشتمل ہے ۔ یوروپی یونین آپس میں ایک بڑا فراخدلانہ منصوبہ رکھتے ہیں جب کہ سارک ملکوں میں بعض معاملوں میں فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ۔ سارک ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی ابتدائی کوششوں کے بعد مسائل دھیرے دھیرے نیا رخ اختیار کرتے گئے ۔ اب وزیراعظم مودی کورونا وائرس کے حوالے سے سارک ملکوں سے ربط پیدا کرچکے ہیں تو یہ ایک اچھی شروعات ہے ۔ سارک ممالک دنیا کی آبادی کا 5 واں حصہ رکھتے ہیں لیکن اس گروپ کے صرف 3 ممالک ہی اہم ہیں ۔ 3 ممالک جیسے بنگلہ دیش ، پاکستان اور ہندوستان ہی معاشی طور پر کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ برسوں میں دوری پیدا کرلی گئی ہے اور سری لنکا ، بھوٹان اور نیپال سے بھی ہندوستان کی قربت محدود نوعیت کی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ سرحد پار کی تجارت بہت ہی محدود ہوچکی ہے ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم مودی کی کوششیں ان ممالک کے تعاون پر منحصر ہے ۔ جب یہ ممالک تجارت اور معیشت کے معاملے میں دو قدم پیچھے ہوتے ہیں تو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم مودی کے جذبہ کا کہاں تک ساتھ دیں گے یہ وقت آنے پر معلوم ہوگا ۔ سارک کے اندر یوروپی یونین کی طرح متحدہ جذبہ کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت باہمی تعلقات کے معاملہ میں دوری اختیار کرچکے ہیں ۔ انہیں کورونا وائرس کے حوالے سے قریب آنے کا موقع مل رہا ہے تو اس بہانے دونوں ملکوں کو بھر پور اور فراخدلانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہوگی ۔ کورونا وائرس نے سارک ممالک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھی کوشش ہونی چاہئے ۔ لیکن اس وقت ہندوستان کی جو حکمراں پارٹی ہے اس کا نظریہ سارک کے بعض ملکوں کو کھٹکھٹتا ہے ۔ سارک کے قیام کے 35 سال مکمل ہوئے ہیں لیکن ان ملکوں نے صرف چند ایک موقع پر ہی ایک دوسرے کے ساتھ عہد کی پابندی کی ہے ۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ سارک کا یہ گروپ تقریباً بستر مرگ پر ہے ۔ اب جب کہ وزیراعظم مودی نے کورونا وائرس کے حوالے سے سارک ملکوں کو یکجا کیا ہے اور باہمی تجربات کے ذریعہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی جانب توجہ دی گئی ہے تو اس سلسلہ کو پوری دلچسپی اور جذبہ خدمت کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے ۔ سارک ملکوں کے ماہرین اور عہدیداروں کے درمیان مذاکرات کو جاری رکھتے ہوئے اجتماعی کوشش سے ہی وباء یا اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ سابق میں سارک ملکوں کو کئی محاذوں پر ناکامی ہوئی ہے کیوں کہ رکن ممالک میں اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ خاص کر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی بحالی سارک ملکوں کے لیے ایک خوشخبری ہوگی ۔۔