کورونا وائرس سے فوت مسلم میتوں کو جلانا غیراسلامی

   

کورونا وائرس کے قہر سے ساری دنیا پریشان ہے ۔ اس قدر شعور و آگاہی اور احتیاطی تدابیر کے باوجود ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہوگئے اور لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ ہر ایک اس وباء اور اس کے نتائج پر اپنے نطقہ نظر سے غور کررہا ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ ہی اپنی حکمتوں کو زیادہ جانتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ وباء ہر ایک فرد بشر کے لئے ایک وارننگ ضرور ہے کہ وہ اپنی مسلسل رواں و متحرک زندگی سے یکلخت رُگ گیا اور ساری دنیا پر سکون و بے حرکتی چھا گئی ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے بہت جلد اس مصیبت سے انسانیت کو راحت عطا فرمائیگا ۔ پھر دوبارہ یہ دنیا میں حرکت و نشاط بحال ہوگی لیکن اس وقت یہ دنیا پہلی دنیا سے الگ ہوگی ۔ ہر انسان کی ذہنیت بدل جائیگی ، معیار ، پسند ، رغبتوں میں فرق آجائیگا ۔ پھر نئے سرے سے ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا ۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں کئی ایک مسائل پیدا ہوئے ہیں ، وہیں اس کا اثر دینی مسائل پر بھی مرتب ہوا ہے ۔ سب سے اہم اور نازک مسئلہ مساجد میں نماز باجماعت کا اہتمام اور جمعہ ، تراویح و عیدین کا انتظام تھا ۔ کرفیو کی صورتحال تو ہندوستان میں پیش آتی تھی اور مسلمان حسب موقعہ جمعہ کا اہتمام کرلیا کرتے تھے ۔ اس مرتبہ کورونا وائرس کی نزاکت کے پیش نظر عام نمازوں سے مصلیوں کو دور رکھنا اور مساجد کو مقفل کرنا ایک نازک فیصلہ تھا ۔ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے مسلمانوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا بطور خاص امریکہ و یوروپ کے مسلمانوں نے وقت سے پہلے مساجد کو مقفل کیا اور گھر میں نماز پڑھنے کی تلقین کی ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مساجد کو مقفل کرنے اور پنجوقتہ نمازوں کو روکنے میں جہاں انسانیت کے تحفظ کا عنصر شامل تھا وہیں خدانخواستہ تھوڑی سے لاپرواہی سے دشمن میڈیا کو موقعہ نہ دینا بھی حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن دشمن میڈیا کے ڈر سے پنجوقتہ نمازوں کو قبل از وقت یعنی سنگین صورتحال سے قبل ملتوی کرنا ازروئے شرع جائز ہوسکتا ہے یا نہیں، قابل غور نقطہ ہے ۔
اور مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا ہونے سے قبل اہل علم کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ مساجد اور انتظامی کمیٹیوں کیلئے واضح ہدایات مرتب کریں تاکہ یہ جو کشمکش کی صورتحال اس وقت رہی اس کا اعادہ نہ ہو ۔ علاوہ ازیں ایک مسئلہ مساجد میں خطبۂ جمعہ اور نماز تراویح کی Live Streaming کا تھا ۔ امریکہ میں بہت سے نوجوان جو ٹکنالوجی کے استعمال کے دلدادہ ہیں ، ان کی دیرینہ خواہش و تمنا تھی کہ وہ مساجد میں خطبۂ جمعہ اور تراویح کے راست ٹیلی کاسٹ کا انتظام کریں اور تمام لوگ گھروں میں رہکر امام و خطیب کی اقتداء کرکے مساجد سے دوری کا مداوا کریں گے لیکن بفضل الٰہی کسی بھی گوشہ سے ایسی بدعت اور جرء ت بیجا کی کوئی خبر تاحال موصول نہیں ہوئی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیداشدہ مسائل میں ایک اہم مسئلہ تجہیز و تکفین ، میت کو غسل دینے ، نمازِ جنازہ پڑھانے اور تدفین کرنیکا ہے ۔ یہ ایک نہایت حساس مسئلہ ہے ۔ مومن میت کا اکرام لازم ہے ۔ غسل، تجہیز و تکفین ، تدفین یہ سب اکرام میت کے لئے ہے اور یہ میت کے زندوں پر حقوق میں شامل ہے۔ اس کو فرض کفایہ کا درجہ دیا گیا اگر بعض حضرات اس کو سرانجام دیتے ہیں تو سب سے ساقط ہوگا ورنہ تمام اہلیان محلہ شریک گناہ ہونگے۔

امریکہ و یوروپ میں ملکی قوانین کے پیش نظر میت کو گھروں میں غسل دینا مشکل ہے بالعموم سرکاری یا عیسائی یا اسلامی غسل خانوں میں میت کو غسل دیا جاتا ہے ، تجہیز و تکفین کے بعد میت کو مسجد لایا جاتا ہے ، نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور مسجد ہی سے قبرستان کو لیجایا جاتا ہے لیکن ہندوستان و پاکستان میں میت کو گھروں میں غسل دینے کا رواج عام ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کی روشنی میں میت سے وائرس منتقل ہونے کے تاحال کوئی آثار نہیں اِلا یہ کہ میت کے جسم پر یا اس کے کپڑوں پر وائرس ہو تو چھونے اور مس کرنے سے منتقل ہوسکتا ہے ۔ اسی بناء پر بعض ممالک میں میت کو Funeral Homes میں تجربہ کار عملہ کی معاونت سے مسلمانوں کا ، کورونا وائرس سے فوت مسلمان کو غسل دینے کی اجازت دی جارہی ہے اور فیملی کے قریبی دو افراد شرکت کرسکتے ہیں لیکن ہندوستان کی صورتحال بالکل جدا ہے ۔ یہاں مخصوص طریقے سے میت کو کیمیکل سے دھوکر Wrap کردیا جارہا ہے حتی کہ بعض ریاستوں میں نہ نمازِجنازہ کی اجازت دی جارہی ہے اور نہ تدفین کی بلکہ ان کو Cremate یعنی جلادیا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ مسلمان میت کو جلانا غیراسلامی عمل ہے یہ مشرکانہ طریقہ ہے اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہوسکتی جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی کی ہدایات کے پیش نظر اس کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تدفین کا عمل خدا کا نازل کردہ قانون ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جاری و نافذ ہے جب قابیل نے اپنے بھائی ھابیل کو قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ نے کوے کے ذریعہ تدفین کا طریقہ بتایا۔(سورۃ المائدۃ:۳۱؍۵)

اﷲ تعالیٰ نے سورۂ عبس میں انسان کی ناشکری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ’’کسی چیز سے اﷲ نے اس ( انسان ) کو پیدا کیا ( اسے ) ایک نطفہ سے پیدا کیا پھر اس کو ہموار کیا ۔ پھر اس کے لئے راستہ کو آسان کیا ، پھر اس کو موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔ (سورۂ عبس ۸۰؍۱۸۔۲۱)
میت کی قبر میں تدفین کرنا منشاخداوندی ہے ، نیز میت کو جلانا درحقیقت میت کی توہین ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’میت کی ہڈی توڑنا اس کی زندگی میں اس کی ہڈی توڑنے کے برابر ہے ‘‘۔ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے فتوی دیا کہ مسلمان میت کو جلانا جائز نہیں ہے ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں رقمطراز ہیں : اسی حدیث سے مستفاد ہے کہ مومت کی حرمت بعد از مرگ ایسی ہے جیسے اس کی حیات میں تھی ۔ لہذا کورونا وائرس سے فوت مسلمان میت کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین سے وائرس کے پھیلنے کا امکان ہے ، اور مسلمانوں کا ایسے میت کو مسلمان قبرستان میں تدفین سے روکنا غیرمعقول اور حمیت اسلامی کے خلاف ہے ۔ اس کے اطراف و اکناف میں رہنے والوں کو تاحال معلومات کی روشنی میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
عامۃ المسلمین کے خوف و ہراس کو دیکھتے ہوئے ارباب حل و عقد کی دوراندیشی ہوگی کہ فی الفور آبادی سے دور کسی قبرستان میں مکمل عزت و اکرام سے ایسے مسلمانوں کی تدفین کا انتظام کیا جائے جو فوت ہوئے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ملت اسلامیہ کی گرانقدر خدمت ہوگی ۔