کورونا کا خطرہ کم ہورہا ہے

   

حوادث کو جگر بھایا ہمارا دل پسند آیا
سواء طوفاں کے ہم کو بھی کہاں ساحل پسند آیا
کورونا کا خطرہ کم ہورہا ہے
حکومت نے کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا کہ ملک گیر سطح لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا بروقت فیصلہ کرنے سے امریکہ اور یوروپ کی صورتِ حال سے ہندوستان کو بچانے میں کامیابی ملی ہے۔ اگر لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا جاتا تو پھر اب تک ملک میں کورونا وائرس کے ایک لاکھ کیسس ہوتے۔ اب کورونا وائرس قابو میں ہونے کا دعویٰ تو کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ احمدآباد، سورت، حیدرآباد اور چینائی میں کوویڈ متاثرین کی تعداد زیادہ ہورہی ہے۔ ایک طرف حکومت کوویڈ کے پازیٹیو کیسوں کا پتہ چلانے کے لئے طبی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے پازیٹیو کیسوں کی نشاندہی کی ہے تو دوسری طرف گھر گھر جانکاری مہم کے لئے بھی ہدایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ملک کے 80 اضلاع میں کورونا کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ 23 ریاستوں کے ان 80 اضلاع میں گزشتہ 28 دنوں سے کوئی تازہ کیس سامنے نہیں آیا ہے تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔ لاک ڈاؤن نے کوویڈ متاثرین کی تعداد بڑھنے سے روکنے میں مدد کی ہے اور گھر گھر سروے، کورنٹائن اور ایسولیشن جیسے اقدامات کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکا ہے۔ لاک ڈاؤن نے وائرس پر قابو پانے کا کام کیا ہے تو اب حکومت کو مابعد لاک ڈاؤن چوکسی اختیار کرنے اور کوویڈ کیسوں کے امکانی پھیلاؤ کو روکنے کے لئے متبادل انتظامات کی ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔ کورونا وائرس نے دُنیا کی تاریخ میں خطرناک وباء ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ اس وباء کے خطرناک ہونے کا عالم یہ ہے کہ اس کے متاثرین کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے تو انسان سنبھل نہیں پارہا ہے۔ چین میں پھوٹ پڑنے والی اس وباء کے بعد ساری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے ساری دنیا میں انسانوں کو لقمہ بنانے والی یہ وباء لاکھوں انسانوں کو متاثر کررہی ہے۔ معیشت بھی تباہ ہوچکی ہے۔ اس وباء کے ویکسین کی تیاری کے لئے ماہرین دن رات کام کررہے ہیں۔ یہ انسان کی بدقسمتی ہے یا بے بسی جو اب تک اس وباء کا ٹیکہ تیار نہیں کیا جاسکا۔ گزشتہ تین ماہ میں جو کچھ ہوا ہے، اس میں صرف یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے سے دور رہ کر احتیاط کرنی چاہئے۔ جو لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے قاصر ہیں، وہ کورونا کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔ انسانوں کو وباء سے بچانے کے لئے کئی ملکوں کے سربراہوں نے ٹیکہ کی تیاری پر زور دیا ہے۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ایک تجویز رکھی جس کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ متاثرین کو جراثیم کش انجکشن لگانے سے مریض کو کئی دیگر مسائل کا شکار ہونا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ کی تجویز کو ماہرین نے مضحکہ خیز قرار دے کر صدر امریکہ پر شدید برہمی کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اپنے ملک میں روزانہ کی اموات کا اس قدر دھکہ پہنچا ہے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کے دہانے پر پہنچ گئے۔ یہ تجویز نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ اس طرح جراثیم کش محلول تیار کرنے والی ڈیٹول کمپنی نے بھی خبردار کیا کہ کسی بھی صورت میں انسانی جسم میں جراثیم کش دوا داخل نہ کی جائے۔ اس کے خوفناک اور خطرناک نتائج نکلیں گے جس سے انسان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ وباء نے ہر ایک کو بے بس کردیا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں ہوں یا ترقی پذیر ممالک، اس وباء سے متاثر ہیں۔ اس وباء نے دنیا کی معاشرتی اور معاشی زندگی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس خطرناک صورتِ حال کے باوجود ہندوستان میں حکومت کی سطح پر جو احتیاطی اور انتظامی اقدامات کی ضرورت تھی، یہ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اب لاک ڈاؤن نے متوسط طبقہ کے خاندانوں کو شدید متاثر کردیا ہے۔ ملک بھر میں کئی خاندانوں کی مالی صورتِ حال ابتر ہوچکی ہے۔ اچانک روزگار ختم ہونے کے بعد کی جو کیفیت ہوئی ہے، اس کو دور کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے کوئی منصوبہ ہی نہیں بنایا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ فوری مالیاتی منصوبوں کو قطعیت دے کر ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کو راحت پہنچانے کے اقدامات کرے۔
دکانات کھلی رکھنے کی اجازت!
مرکزی وزارت داخلی اُمور نے ملک میں لاک ڈاؤن کے دوران دکانات کھلی رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ صرف ان دکانات کو کھلی رکھنے کی اجازت ہے جو دیہی علاقوں میں ہیں اور شہری علاقوں میں صرف رہائشی کامپلکس میں یا گلی کوچوں میں اِکا دُکا دکان ہو تو اسے کھلی رکھی جاسکتی ہے، لیکن مرکزی وزارت داخلہ کے ان احکامات سے اُلجھن پیدا ہوئی ہے۔ ریاستوں میں خاص کر تلنگانہ اور بالخصوص حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل آوری کی جارہی ہے۔ کسی بھی علاقہ میں کوئی بھی دکان کھلی رکھنے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر اگر شہری علاقوں میں ضروری اشیاء کی دکانات کو کھلی رکھنے کی مشروط اجازت دی جائے تو اس سے روزہ داروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حکومت تلنگانہ بالخصوص محکمہ پولیس کو اس خصوص میں توجہ دیتے ہوئے سحری اور افطار کے اوقات میں دکانات، ہوٹلوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو کاروبار کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ روزہ داروں کو ضروری اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں حاصل کرنے میں سہولت ہوسکے۔ کورونا وائرس کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کے ساتھ نان کنٹینمنٹ زونس میں دکانات کو کھلی رکھنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ ہوٹلوں اور کھانا پارسل لے جانے کی اجازت دیتے ہوئے ہوٹلوں کو بھی کھلی رکھنے کی مشروط اجازت دی جاتی ہے تو ماہِ رمضان میں روزہ داروں کو سہولت حاصل ہوگی۔