کورونا کیلئے تبلیغی مرکز کی طرح مسلمانوں کو بدنام کرنا بھی مقصد ہوسکتا ہے

,

   

مسلمان ہوشیار ‘ دوکانات کا کھولنا سازشی چال تو نہیں؟

حیدرآباد۔30اپریل(سیاست نیوز) ماہ رمضان المبارک کے دوران اگر لاک ڈاؤن ختم کیا بھی جاتا ہے تو یہ ایک سازش ہوگی اور لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والے تجارتی نقصانات کی عیدکی خریداری کے ذریعہ پابجائی اور بعد ازاں اگر کورونا وائرس پھیلتا ہے تو اس کیلئے مسلمانوں کی جانب سے بازاروں میں جم غفیر کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ کہا جائے گا مسلمانوں نے عید کی خریدی کیلئے نکلتے ہوئے کورونا وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح کے پوسٹ سوشل میڈیا پر تیزی سے گشت کر رہے ہیں اور عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران اگر لاک ڈاؤن ختم کیا جاتا ہے تو کوئی خریداری نہ کریں کیونکہ یہ منظم سازش کا حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن سے قبل ماہ رمضان میں فروخت کیلئے کپڑوں کی تاجرین نے خریدی کرلی تھی اور مل مالکین کی جانب سے مسلمانوں کی جانب سے عید کے موقع پر استعمال کئے جانے والے طرز کے کپڑوں کی تیاری عمل میں لالی گئی تھی اور انہیں اب اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ ان کی جانب سے تیار کیا گیا مال اب فروخت نہیں ہوگا اسی لئے وہ لاک ڈاؤن میں توسیع کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ انہیں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے دوران لاک ڈاؤن کے خاتمہ کے کوئی آثار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان خدشات کا اظہار کیا جا رہاہے کہ سازش کے تحت مختصر مدت کیلئے لاک ڈاؤن کو ختم کیا جائے گا اور تجارتی سرگرمیوں کی انجام دہی کے بعد دوبارہ لاک ڈاؤن لگاتے ہوئے اس بات کا اعلان کردیا جائے گا کہ بازاروں میں مسلمانوں نے عید کی خریدی کیلئے جو ہجوم لگائے تھے اس لئے دوبارہ کورونا وائرس کی وباء نے شدت اختیار کی ہے۔ سرکردہ شہریوں کی جانب سے یہ کہا جا رہاہے کہ مسلمانوں کو اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ کس طرح تبلیغی جماعت کو کورونا وائرس کیلئے ذمہ دار قرار دینے کی کوش کی گئی اور کس طرح انہیں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔اسی طرح شمالی ہند کی ریاستوں میں مسلم ٹھیلہ بنڈی رانوں سے میوہ یا ترکاری نہ خریدنے کی مہم شدت سے چلائی جا رہی ہے جبکہ غریب مسلمانوں کی اکثریت ٹھیلہ بنڈی پر کاروبار کرتی ہے۔ ٹھیلہ بنڈی تاجرین کے کاروبار کو متاثر کرنے کیلئے فرقہ پرست عناصر کی جانب سے جو مہم چلائی جا رہی ہے اس کا مؤثر جواب دینے کا موقع اب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس رمضان المبارک کے دوران عید کی خریدی نہ کرتے ہوئے بہتر اور عمدہ کپڑے پہن کراپنی عید کی خریداری کے پیسوں کی مستحقین میں تقسیم کے ذریعہ عید کی خوشیاں بانٹنے کے اقدامات کریں تاکہ مستحقین بھی عید کے موقع پر شیر خورمہ تو پی سکیں۔سوشل میڈیا پر جو پوسٹ گشت کر رہے ہیں ان میں واضح کہا جارہا ہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ مسلمانو ںکی عبادتگاہیں مقفل ہیں اور مسلمان باجماعت نماز ادا نہیں کر پارہے ہیں اور ماہ رمضان المبارک کے دوران تراویح کی لذت سے محروم ہیں ایسے وقت میں عید کیلئے کپڑوں کی خریداری کیلئے جواز پیدا کرناکوئی عقل مندی نہیں بلکہ جب یہ سب کچھ نہیں ہے تو عید کس بات کی اورغالب امکان ہے کہ نماز عید الفطر کا بھی اجتماع نہیں ہوگاتو ہمیں نئے کپڑوں اور عید کا کوئی مطلب ہی نہیں رہے گا اسی لئے اس عید الفطر کے موقع پر نئے کپڑوں اور عید کی خوشیوں کے نام پر اخراجات کو مستحقین میں تقسیم کرکے عید کی خوشیاں بانٹنے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ ہمارے ساتھ ہمارے پڑوسی بھی عید کے موقع پر ان خوشیوں میں شریک رہ سکیں۔