کورونا کی افرا تفری

   

Ferty9 Clinic

میں پریشاں تھا پریشاں ہوں نئی بات نہیں
آج وہ بھی ہیں پریشان خدا خیر کرے
کورونا کی افرا تفری
کورونا نے سارے ہندوستان کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ملک کی کوئی ریاست اور کوئی شہر اب اس کے قہر سے بچا ہوا نہیںہے ۔ حد تو یہ ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ اور صنعتی ریاستیں تک بھی اس معاملے میںا ب بے بس نظر آنے لگی ہیںاور وہ مدد کیلئے ایک دوسرے کو آواز لگا رہی ہیں لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی ہے ۔ در اصل کوئی ان کی مدد کرنے کے موقف میں تک نہیں ہے ۔آج جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ہر ریاست میںا فرا تفری مچی ہوئی ہے ۔ موت کا کھیل تیزی سے کھیلا جارہا ہے ۔ لوگ زندگی ہار رہے ہیں۔ دواخانوںمیںان کے علاج کی کوئی گنجائش تک دستیاب نہیں ہے ۔ دواخانوں میں مریضوں کیلئے درکار تعداد میں بستر نہیں مل رہے ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر میں تو وینٹیلیٹر کی دستیابی مشکل ہورہی تھی لیکن اب دوسری لہر اتنی شدت کی دکھائی دے رہی ہے کہ یہاںمریضوںکیلئے آکسیجن تک مشکل سے مل پا رہی ہے ۔ حکومت کو آکسیجن بیرونی ممالک سے درآمد کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ اگر دارالحکومت دہلی سے شروعات کی جائے تو چیف منسٹر اروند کجریوال کا کہنا ہے کہ اب وہاں دواخانوں میں بستر دستیاب نہیں ہیں ااور آکسیجن کی قلت ہوگئی ہے ۔ ایک دن میں کورونا کے وہاں 24 ہزار کیس درج ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرا کی حالت پہلے ہی سے خراب ہے ۔ وہاں تو ہیلت ایمرجنسی ہوگئی ہے ۔ لاک ڈاون کے باوجود کیسوں میںتیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ریاستی حکومت مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے کہ حالات کو بہتر بنایا جاسکے تاہم حالات قابو میں آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے ریاست میںویکسین کی کمی اور آکسیجن کی کمی کی شکایات کرتے رہے ہیںلیکن مرکزی حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی جا رہی ہے ۔ ویکسین کی کم فراہمی کی شکایات راست وزیر اعظم سے کی گئی تھی لیکن انہوںنے اس کو سنی ان سنی کردیا ۔ اب آکسیجن کی کمی کیلئے جب ادھو ٹھاکرے نے اس کی شکایات کیلئے وزیر اعظم کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ مغربی بنگال کے دورہ پر گئے ہوئے ہیں جہاں انتخابات چل رہے ہیں۔ وزیراعظم کیلئے ایسا لگتا ہے کہ ساری افرا تفری اپنی جگہ لیکن انتخابی کامیابی زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔
مدھیہ پردیش ‘ اترپردیش اور گجرات کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں نہ صرف دواخانوں میں مریضوں کیلئے جگہ نہیں مل رہی ہے بلکہ شمشان گھاٹ بھی اپنی گنجائش سے زیادہ بھر گئے ہیں۔ نعشوں کو چتا دکھانے کیلئے کئی گھنٹوں کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ قبرستانوںمیں جگہ دستیاب نہیں ہو پا رہی ہے ۔ لوگ دواخانوں کے راستے میں دم توڑ رہے ہیں۔ دواخانوں کی حالت اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ لوگ وہاں جانے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ دواخانوںمیں راستوں میںمریضوںکو ڈالا جا رہا ہے ۔ چھتیس گڑھ میں کچرے کی نکاسی والی گاڑیوں سے کورونا مریضوں کومنتقل کیا جا رہا ہے ۔ طبی عملہ درکار تعداد میںدستیاب نہیں ہے ۔ ادویات کا مسئلہ اپنی جگہ پریشان کن ہے ۔ سارا کچھ انتہائی تشویشناک ماحول ہے اس کے باوجود حکومتوںکو اس کی کوئی فکر لاحق نہیں رہ گئی ہے ۔ حکومتیں اپنے اپنے قول میں بند رہنے کو ہی ترجیح دے رہی ہیں۔ انتہائی مشکل ترین صورتحال میں بھی حکومتوں اور اپوزیشن کے مابین کسی طرح کا تال میل نظر نہیں آتا ۔ اگر کہیں حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن کی جانب سے ٹانگ کھینچنے کی روایت ہمیشہ سے رہی ہے لیکن آج ہندوستان میں صورتحال یہ ہے کہ عوام کو تکالیف اور مسائل سے بچانے کیلئے اپوزیشن کی جانب سے مختلف تجاویز دی جا رہی ہیں لیکن حکومت ان کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتی ۔ حکومت اس معاملہ میں انا پرستی کا شکار ہوگئی ہے ۔ عوام کی مشکلات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آمرانہ طرز عمل ہی کو جاری رکھا ہوا ہے ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ افرا تفری کے اس ماحول کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے ۔ سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ آج ملک کے عوام کو سرکاری امدادا ور طبی انفرا اسٹرکچر پر کوئی بھروسہ نہیںرہ گیا ہے ۔ حکومت کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ سرکاری دواخانہ میںعوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ ادویات کی قلت کو دور کیا جائے ۔ آکسیجن فراہم کی جائے ۔ وینٹیلیٹر کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے ۔ یہ سارا کچھ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیں۔ صرف دعووں کی بجائے حقیقی معنوںمیں عوام کو راحت پہونچانے کیلئے سبھی کو آگے آنا چاہئے ۔ تبھی افرا تفری کے ماحول کو دور کیا جاسکتا ہے ۔
مائیگرنٹ ورکرس کی واپسی
کورونا وائرس کی دوسری لہر کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ ہی ملک کی تمام بڑی ریاستوں اور اہم شہروں سے مائیگرنٹ ورکرس کی ایک بار پھر اپنے اپنے آبائی مقامات کو واپسی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ مائیگرنٹ ورکرس نے پہلی لہر کے بعد بڑے شہروں میں دوبارہ واپسی کرتے ہوئے اپنے کام کاج کا آغاز کیا تھا اور اپنی اور افراد خاندان کی روزی روٹی حاصل کر رہے تھے ۔ معاشی سرگرمیاں بتدریج بہتر ہونے لگی تھیں اور مائیگرنٹ ورکرس کی حالت میں بھی معمولی سا سدھار دیکھنے میں آ رہا تھا تاہم اچانک ہی دوسری لہر نے شدت اختیار کی اور یہ لہر پہلے سے زیادہ تیز اور شدید ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے مائیگرنٹ ورکرس نے دوبارہ اپنے آبائی مقامات کو واپسی کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ یہ واپسی ملک کی معیشت کیلئے بھی اچھی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ معاشی سرگرمیاں ایک بار پھر سے ٹھپ ہوجائیں گی ۔ مزدوروں کی معاشی حالت تو پہلے ہی سے ابتر تھی اور اس میں مزیدا بتری آئے گی ۔ جن حالات سے یہ مائیگرنٹ ورکرس گذر رہے تھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔ سرکاری طور پر ان کی مدد بھی بہت کم کی گئی تھی ۔ حالانکہ پہلی لہر کو ایک سال کا عرصہ گذر چکا تھا لیکن حکومت نے ایک سال کے عرصہ میں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے کچھ کیا نہیں ہے ۔ مائیگرنٹ ورکرس کے تعلق سے عملا خاموشی اختیار کرلی گئی تھی اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب جبکہ یہ لوگ دوبارہ اپنے آبائی مقامات کو واپسی کرنے لگے ہیں تو صورتحال پہلے سے زیادہ ابتر ہونے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومت کو ابھی سے ان حالات کا نوٹ لیتے ہوئے مائیگرنٹ ورکرس کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ معیشت پر ہونے والے منفی اثرات کم سے کم ہوں۔