کویت کا عربی مجلہ “المجتمع” میں شائع ہونے والا ایک موثر واقعہ

,

   

کویت سے نکلنے والا مشہور مجلہ “المجتمع” میں ایک واقعہ پڑھا۔جو دل پہ جاکر لگا۔

واقعہ یہ ہوا کہ لندن میں ایک پاکستانی مسلمان تھا جو پیشہ سے کارپینٹر تھا۔کسی یہودی نے اس کار پینٹر سے اپنے گھر کے ڈیکوریشن اور اس میں فرنیچر کا کام کرانے کا معاملہ کیا۔یہودی شخص نے اس مسلم سے صاف طور پہ کہا کہ اگلے ماہ 4تاریخ کو ہمارے یہاں ایک اہم تقریب ہے اس وقت کام مکمل ہو جانا چاہئے۔مسلم کاریگر نے بھی حامی بھر لی بلکہ اگلے ماہ نہیں اسی ماہ کے 20 تاریخ تک کام مکمل کر لینے کا وعدہ کر لیا۔لیکن ہوا ایسا کہ 20تاریخ گذر کر اگلے ماہ کی 4 تاریخ بھی آ گئ لیکن کام آدھا بھی مکمل نہیں ہو پایا تھا۔اس دوران یہودی اسے بارہا یاد دہانی کراتا رہا یہاں تک کہ مقرر تاریخ آگئ۔یہودی نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی تقریب کسی اور جگہ پر کر کے خاموش بیٹھ گیا۔قریب دو ماہ بعد وہ مسلم کاریگر یہودی کے پاس پہنچا اور کام کے مکمل ہونے کی خبر دی اور اپنا معاوضہ طلب کیا۔یہودی نے بھی ٹھان لی کہ اس شخص کو مزہ چکھانا ہے۔چنانچہ وہ یہودی اس مسلم کو روز یہ کہہ کر واپس بھیج دیتا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں کل لے لینا۔اس طرح ٹال مٹول میں دو ماہ گذر گئے لیکن اس مسلم شخص کو معاوضہ نہ مل سکا۔اس نے تنگ آکر اس ربی (یہودی عالم) کے پاس گیا جس کے یہاں وہ یہودی اکثر آیا کرتا تھا۔مسلم نے اس یہودی عالم سے شکایت کی ۔عالم نے مسلم شخص کو تسلی دی اور ایک چھوٹی سی پرچی میں کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ یہ بند لفافہ اس یہودی شخص کو دے دینا وہ پڑھتے ہی تمہارا پیسہ دے دیگا۔ایسا ہی ہوا ۔جیسے ہی اس یہودی نے اپنے ربی کی تحریر پڑھی فورا اس مسلمان کو اس کا پیسہ دے دیا۔اور اس سے معافی مانگی۔ساتھ ہی اسی پرچہ پر شکریہ لکھ کر اسی مسلمان کی معرفت اپنے ربی کے پاس بھیج دیا۔

اس مسلمان کے دل میں بہت زیادہ تجسس ہوا کہ آخر کیا وجہ ہوئ کہ میں اتنے دن سے پریشان ہوں ۔گریہ وزاری کرتارہا ہوں لیکن اس نے مجھے میرے پیسے نہیں دئے۔اور اب اس چھوٹی سی پرچی پڑھ کر اس نے فورا پیسے دے دئے۔آخر اسے پڑھنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔اس نے جب پرچی کھولی تو اس میں یہ لکھا تھا کہ۔

“تمہارے اندر مسلمان کی عادت کب سے پیدا ہوگئ۔جس قوم میں عہدو پیمان اور اپنی زبان سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی گندی عادت پیدا ہو جاتی ہے وہ قوم دنیا میں ذلیل ورسوا ہو جاتی ہے۔زوال کی شکار ہوکر دوسری قوموں کی ماتحت بن جاتی ہے۔پھر نہ تو اس کو اقتدار مل پاتا ہے اور نہ عزت وعظمت۔بلکہ اس پر ایسے بندوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے جن کے پاس طاقت ہوتی ہے۔اقتدار ہوتا ہے ۔حکومت وسلطنت ہوتی ہے۔اور یہ مسلط قوم اسے سخت سزا دیتی ہے۔کیا تم بھی مسلمانوں کی طرح اپنی عزت وعظمت۔سلطنت واقتدار ۔حکومت وسیادت اور غلبہ وبلندی کو ختم کرنا چاہتے ہو۔

یہ پڑھ کر اس مسلمان کے قلب وضمیر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ منہ تکتا رہ گیا اور اسےخود پر اور اپنی قوم کی زبوں حالی پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔