کٹھوعہ عصمت ریزی کیس کا فیصلہ

   

آئے تھے بزم ناز میں کیا کیا سمجھ کے ہم
اُٹھے تو ساتھ ہجر کے دن رات لے چلے
کٹھوعہ عصمت ریزی کیس کا فیصلہ
قانون و انصاف کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد میں مکمل کامیابی ملنے کی توقع کو جب دھکہ لگتا ہے تو صدمہ ہوتا ہے، جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں ایک خانہ بدوش ( بکریاں چرانے والے خاندان ) کی 8 سالہ لڑکی کی عصمت ریزی اور قتل کے اصل ملزمین کو صرف سزائے عمر قید دی گئی جبکہ متاثرہ لڑکی کے ماں باپ اور خاندان والے اس گھناؤنے جرم کے تمام ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس واقعہ کا اصل ملزم کمسن ہونے کی وجہ سے ابھی آزاد گھوم رہا ہے۔ عصمت ریزی اور قتل کے واقعات حیوانیت ہے ، ان واقعات میں ملوث خاطیوں کو سحت سے سخت سزاء دینے کی قانون وکالت کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں نے ملک کے اندر عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات کو ختم کرنے کیلئے سخت قوانین بنانے اور مجرمین کو سزا دینے کے مطالبات کو سنجیدگی سے بھی لیا ہے ۔ مگر جب کسی واقعہ میں مذہب اور سیاست داخل ہوتی ہے تو گھناؤنے جرائم کو بھی نظرانداز کردینے کا بدترین مظاہرہ کیا کیا جاتا ہے۔ کٹھوعہ میں جب 8 سالہ مسلم لڑکی کے ساتھ دردناک واقعہ پیش آیا تو اس واقعہ کے خلاف ساری انسانی برادری اُٹھ کھڑی ہوئی لیکن ملزمین کی تائید میں بی جے پی قائدین سڑک پر اُتر آئے۔ آج مرکز میں قومی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے والی پارٹی بی جے پی نے عصمت ریزی اور قتل کیس کے ملزمین کی کھلی تائید کی تھی ، اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لینے والی خاتون وکیل کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور اسے ایک مسلم لڑکی کے ساتھ ہوئے گھناؤنے واقعہ کے خلاف آواز اُٹھانے اور مقدمہ لڑنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ آج جبکہ اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے لیکن متاثرہ خاندان کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہوا۔ معصوم لڑکی کی جان لینے والوں کو عمر قید کی سزا سنانے پر لڑکی کے والدین مایوس ہیں، ان کو اپنے علاقہ سے نقل مکانی کے لئے مجبور کردیا گیا ہے کیونکہ لڑکی کے والدین کا سماجی بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ سرینگر سے 137 کلو میٹر قریب یہ لوگ اپنی آگے کی زندگی کو گذارنے میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔ کٹھوعہ سے نقل مکانی کرکے یہ ماں باپ سرینگر کے قریب رہنے لگے ہیں لیکن ان کی روٹی روزی کا مسئلہ اور سماجی بائیکاٹ نے ان کو کمزور کردیا ہے، اور اب عدالت سے مکمل انصاف نہ ملنے پر یہ خاندان مایوسی کا شکار ہے۔ گذشتہ سال جموں و کشمیر میں 8 سالہ لڑکی کے ساتھ جس طرح کی دردناک اور اذیب ناک حرکت کی گئی اس پر نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد ہی قانون و انصاف کی دیواریں بلند ہوئی تھیں‘ اس کیس کو ہر طریقہ سے دبانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن جب مسئلہ قومی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا تو سپریم کورٹ کو بھی مداخلت کرنا پڑا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ملزمین کو سانس لینے کی آزادی دی گئی ہے۔ معصوم 8 سالہ لڑکی نے گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیا لیکن اس کے خاطیوں کو کھلی فضاء میں سانس لینے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ تاہم اس کیس سے وابستہ تمام وکلاء اور قومی و عالمی برادری نے ایک معصوم کی جان پر کی گئی زیادتیوں کی شدید مذمت کرکے اپنے انسانی جذبہ کا اظہار کیا۔ عدالت کے اس انصاف کا خیرمقدم کیا جاناچاہیئے ۔ سیاست کرنے سے زیادہ ہمارے نظام عدالت میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاطیوں کو زیادہ سے زیادہ سخت سزا دینے کی بات کرنے والوں کو چاہیئے کہ وہ نظام عدلیہ میں پائی جانے والی خامیوں کو ختم کرنے پر دھیان دیں۔ جن والدین کی لخت جگر ان سے چھین لی گئی ان کے ساتھ مکمل ہمدردی کرتے ہوئے ان کے مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کشمیری لڑکی گذشتہ سال 10 جنوری 2018 کو اپنے والدین کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی جس کی نعش 5 دن بعد جنگل میں دستیاب ہوئی۔ لڑکی کے جسم پر پائے جانے والے نشانات سے اس گھناؤنے جرم کی سنگینی ظاہر ہوگئی تھی جس کے بعد انسانی دل تڑپ اُٹھے تھے اور کیس کو دبانے کی کوشش کرنے والی بی جے پی اور اس کے حامیوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ اس عدالت سے حصولِ انصاف کی امید رکھنے والے لڑکی کے والدین کو مایوسی ہوئی کیونکہ سب کو سزا نہیں ہوئی ہے۔