کپل مشرا کی وارننگ کے ایک روز بعد کس طرح دو گروہوں کے درمیان تشدد کے واقعات پیش ائے

,

   

مذکورہ علاقے میں اتوار کے روز بی جے پی کے کپل مشرا کی جانب سے مخالف سی اے اے احتجاجی پروگراموں کی مخالفت میں ریالی کے بعد سے کشیدگی کے ماحول کے ساتھ پتھربازی کے واقعات بھی ہورہے تھے

نئی دہلی۔ شمال مشرقی دہلی میں پیر کے روز تشدد کے بارہ گھنٹوں میں 5لوگوں کی موت ہوگئی‘ جس میں ایک ہیڈکانسٹبل بھی شامل ہیں‘ جس کو رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کررہے لوگ اس طرح فرقہ پرست ہوگئے ہیں

۔مذکورہ علاقے میں اتوار کے روز بی جے پی کے کپل مشرا کی جانب سے مخالف سی اے اے احتجاجی پروگراموں کی مخالفت میں ریالی کے بعد سے کشیدگی کے ماحول کے ساتھ پتھربازی کے واقعات بھی ہورہے تھے۔

https://twitter.com/KapilMishra_IND/status/1231544492596981760?s=20

مشرا نے اپنی وارننگ میں واضح نہیں کیا‘ انہوں نے مخالف سی اے اے مظاہرین کے نام ایک دھمکی آمیز ویڈیو جاری کیا‘ وہ احتجاج کے قریب اپنے حامیوں کے ساتھ اکٹھا ہوئے‘ انہوں نے تشدد کے بعد ٹوئٹ کیاکہ ”جب تک ٹرمپ ہندوستان میں ہیں‘ ہم اس علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں‘ اس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے“۔

اس کے باوجود پیر کے روزجب بابر پور او رموج پور میٹرو لائن کی سڑک کے دونوں کناروں پر دونوں ہی فرقوں کے نوجوان اکٹھا ہونے کے ساتھ تشدد کے واقعات رونما ہوئے تو پولیس تماشائی بن کر کھڑی دیکھائی دے رہی تھی۔ پہلا پتھر کس نے مار اس مقابلہ آرائی میں دو نوں فرقوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام عائد کیاجارہا ہے‘ دن میں 11بجے کے قریب موج پور سے پتھروں کی ایک موٹی چاد ر آسمان میں دیکھائی د ے رہی تھی۔

دوپہر تک جو لوگ پتھر بازی کرتے کیمروں میں قید ہوئے ان میں پولیس کے جوان بھی شامل تھا جس کے متعلق پوچھنے پر دہلی کے ایک سینئر پولیس افیسر نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔علاقے کے کئی مسلمانوں نے مبینہ طور پر اتوار کے روز ان کی کمیونٹی کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کی بات کہی ہے۔

ہاتھ میں لوہے کی سلاخ اور چہرے پر دستے باندھے ایک مقامی نے دعوی کیاکہ”یہ مشترکہ کالونی ہے۔ ہم نے اپنے پڑوسیوں کو ہمارے اوپر پتھر برساتے ہوئے دیکھاے۔ اتوار کی رات میں اٹو سے لوگوں کو کھینچ کر اتارتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور مقامی ہندو پتھر اکٹھا کررہے تھے“۔

دوسری جانب سے موج پور مندر کے مقام پر تاہم کئی خواتین نے دعووی کیاکہ وہ پیر کے روزصبح10کے وقت ہنومان چالیسہ پڑھ رہے تھے ”مسلم لوگ ائے اور ان پر پتھر برسانا شروع کردیا“۔ان میں سے کئی لوگوں کے ہاتھوں میں سی اے اے کی تائید میں نعروں پر مشتمل پلے کارڈس موجود تھے اور ان کے پاس میں نصب کھنبہ پر ”ہاؤڈی ٹرمپ“ کا بیانر بھی نصب کیاگیاتھا۔

جی ٹی بی اسپتال میں زیر علاج 25سالہ روہت کمال شکلا نے اپنے پیر میں گولی لگانے کی شکایت کرتے ہوئے کہاکہ ”میں موج پور چوک پر تھا‘ جہاں پر لوگ ہنوما چالیسہ پڑھ رہے تھے‘ اسی وقت دوسری طرف سے ہمارے اوپر پتھر برسانا شروع ہوگیا۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے ہم پر حملہ کیا اور ایک نے گولی چلائی جو میرے پیر میں آکر لگی“۔وہیں موج پور کی مارکٹ بند تھی اور اسکول کھلے ہوئے تھے 1:30کے قریب پولیس اور مقامی لوگوں نے اپنی نگرانی میں بچوں کو ا ن کے گھر واپس لے کر گئے۔

تقریبا2بجے کئی گاڑیوں‘ فوم کے گوداموں اور گھروں کو آگ لگادی گئی اور جئے شری رام کے نعرے لگانے شروع کردیا‘ اور پٹرول بم بھی پھینکے۔

تشدد میں شامل کئے لوگ ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے۔شام تک علاقے میں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا‘ آسمان پر سیاہ رنگ کا دھواں پھیل گیا‘ مگر دہلی فائیر سروس(ڈی ایف ایس) موقع پر پہنچنے کی کوشش ہی کرتا رہا۔

ڈی ایس ایف ڈائرکٹر اتل گرگ نے کہاکہ ”وہاں سے جانکاری مل رہی تھی مگر جانے کے لئے راستہ نہیں تھا کیونکہ علاقے میں بڑی کشیدگی تھی۔ کیونکہ گھروں او ردوکانوں میں کوئی بھی نہیں تھے‘ اسی وجہہ سے سلینڈر پھٹنے کے خدشات کافی بڑھ گئے تھے“۔

قریب3:45پولیس نے آنسو گیس اور پتھر موج پور میں ہجوم کو منشتر کرنے کے لئے چھوڑے۔ مندر کے پاس موجود ہندو یوا واہانی کے رکن پشپیندر مشرا نے کہاکہ ”ہم اپنے گھرو ں سے لاٹھیا ں لے کر ائے ہیں تاکہ مقامی لوگوں کی حفاظت کرسکے۔

اتوا ر کے روز اپنے حفاظت کے لئے ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے مگر اب ہم پوری تیار کے ساتھ ہیں“۔مندر کی سڑک کے اطراف واکناف کے پان او رکپڑوں کی دوکان کے پاس 5:10بجے نوجوانوں کا ایک گروپ اکٹھا ہوا۔

بیس پولیس جوانوں پان کی دوکان لوٹ رہے اور علاقے میں لگے بینار اور شٹرس کو توڑرہے نوجوانوں جن میں کچھ نابالغ بھی تھے کو دیکھ رہاتھا۔مذکورہ ہجوم نے بسکٹ پیکٹس‘ پانی کی بوتلیں لوٹ کر ہجوم کی طرف پھینک رہے تھے۔

انڈین ایکسپریس نے جن کی دوکانیں لوٹی گئی ان میں سے جب دو لوگوں سے بات کی توانہوں نے بتایا کہ وہ جاکر نقصان کا اندازہ لگانے کے لئے ڈرے ہوئے ہیں۔ درایں اثناء اس بات کی جانکاری ملی ہے کہ ڈی سی پی (شاہ دارا) امیت شرماچاند باغ میں سرپر شدید چوٹ لگی ہے اور انہیں جی ٹی بی اسپتال لیاگیا ہے۔

پیر رات ک میکس پٹپار گنج میں ان کی سرجری بھی ہوئی۔کانسٹبل پردیپ کمار ج وویک وہار پولیس اسٹیشن میں تعینات تھے چاندباغ میں اس وقت موجو دتھے جب شرما کو مبینہ طورپر مخالف سی اے اے مظاہرین نے سڑک کھولنے کے استفسار پر مارپیٹ شروع کردی۔

کمار نے کہاکہ”صبح9بجے سے چاند باغ علاقے میں کھڑے تھے اور حالات12:30بجے کے قریب حالات قریب ہوگئے اور مقامی لوگوں نے راستہ بند کردیا۔ہمارے ڈی سی پی 35جوانوں کے ساتھ کھڑے تھے اور انہوں نے بند راستے کھولنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی۔

تقریبا12:50کے قریب ہمارا گھیراؤ کیا اور پتھر بازی شروع کردی گئی۔انہیں پکڑ کر بے رحمی کے ساتھ پیٹنا شروع کردیا۔

ہم نے انہیں بچا کر نکالنے کی کشش کی اور زخمی بھی ہوگئے۔ انہیں بچاکر نکالنے کے بعد اسپتال لے گئے‘ سر سے خون بہہ رہاتھا“۔ دوپہر کے بعد دفعہ144علاقے میں نافذ کردی گئی‘ حالانکہ کے ہجوم سڑکوں او رگلیوں میں اکٹھا ہونے لگا۔

دہلی پولیس کے پی آر او انل متل لوگوں سے اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں اور افواہوں پرتوجہہ نہ دیں اور غیر سماجی عناصر اور شر پسندوں کے خلاف ”سخت کاروائی“ کرنے کی وارننگ بھی دی ہے۔

دن میں 4:30کے قریب ایک شخص کرتا پائجامہ پہنے بھجن پور میں دیکھائی دیا اور اس کو ہجوم نے کرکٹ وکٹوں اور لاٹھیو ں سے پیٹنا شروع کردیا۔

رائٹرس کے ایک فوٹو گرافر نے اس کی تصویریں لی جس میں مذکورہ شخص خون میں لہولہان دیکھائی دے رہاتھا۔پیر کی رات تک بھی اس شخص کی کوئی جانکاری نہیں ملی تھی۔

رات دیر گئے موج پور مندر کے مائیکرو فون سے اعلان کیاگیا کہ”ہمیں اپنا ملک‘ اپنے حقوق اور اپنے وقار کو بچانے کے لئے تیار رہنا ہے“۔

رات9:45کے قریب میں موج پور میں پتھر بازی کے واقعات دوبارہ شروع ہوگئے ایک او ردوکان کو نذرآتش کردیاگیا‘ جس کے آگ کی شعلوں سے پولیس جوان بھی بچ نہیں سکے۔