کچھ بھی ہوجائے، آرٹیکل 370 واپس آنے والا نہیں

   

برکھا دت
حالیہ عرصہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی ایک تصویر منظر عام پر آئی اور میڈیا نے اس تصویر کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اُس تصویر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ بڑھ گئی کیونکہ اس میں وزیراعظم، جموں و کشمیر کی مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے نمائندوں سے ہاتھ جوڑ کر ملاقات کررہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم ہاتھ جوڑ رہے تھے یا پھر جموں و کشمیر سے آئے قائدین ہاتھ جوڑے اپنی بے بسی کا اظہار کررہے تھے، پھر بھی اسے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد وزیراعظم کی جموں و کشمیر کے نمائندوں تک پہلی رسائی سمجھا جائے گا۔ ہم اس تصویر اور جموں و کشمیر کے قائدین سے وزیراعظم کی ملاقات ستم ظریفی کا نام دیں یا پھر کچھ اور کہیں، لیکن تعطل ختم کرنے کی جانب اسے ایک قدم کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے جموں و کشمیر کے جن نمائندوں یا مرد و خواتین کو ملاقات کیلئے طلب کیا تھا۔ سال 2019ء میں ان میں سے بعض کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا، نہ صرف انہیں سیاسی اچھوت بنایا گیا بلکہ حکومت نے یہاں تک اعلان کردیا تھا کہ یہ لوگ لا اینڈ آرڈر کیلئے بہت خطرناک ہیں اور پھر ان مرد و خواتین کو حراست میں رکھا گیا اور کچھ کو گھروں پر نظربند کردیا گیا بہرحال وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی دعوت پر کشمیری قائدین بات چیت کیلئے پہونچے تھے اور زائد از تین گھنٹوں تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک بات ضرور ہے کہ یہ اخلاقی سوال ہمیشہ اُٹھتا رہے گا۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے جموں و کشمیر اور اس کے سیاسی قائدین کے ساتھ جو کچھ بھی کیا، کیا اس کے فوائد حاصل ہوئے یا نہیں۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیری قائدین کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، یا پھر انہیں گھروں پر نظربند کردیا گیا تاہم حکومت کو پھر ایک بار انہیں طلب کرنا پڑا۔ ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنا پڑا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے کشمیر کے تعلق سے جو جارحانہ پالیسی اختیار کی، اس میں کسی قدر نرمی آئی ہے۔ کشمیری سیاست دانوں کا جہاں تک تعلق ہے، ان کیلئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا، اس کا سب سے زیادہ اثر وادی میں دیکھا گیا، جموں میں نہیں اور جن لوگوں کی آپ نے توہین کی تھی، ان ہی کے ساتھ بات چیت شروع کرنا دراصل اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور کروانے کے مترادف ہے کہ دہلی میں آئندہ کسی کی بھی حکومت ہو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف کبھی واپس یا بحال ہونے والا نہیں۔ اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ بی جے پی نے جموں و کشمیر سے متعلق سرحدیں ایک فریم ورک میں کھینچ دی ہیں اور اب مذاکرات میں مصروف ہے۔ حالانکہ جموں و کشمیر کے عوام اور سیاسی قائدین آرٹیکل 370 کی بحالی کا بار بار مطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ حکومت نے اس بات کا تیقن دیا ہے کہ جموں و کشمیر کو دوبارہ مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا لیکن قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور دیگر ریاستوں میں جو قواعد و ضوابط ہیں، ان کا اطلاق عمل میں آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا بات ہوئی؟ یہی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم نے 2019-20ء کی حراستوں کا حوالہ دیا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ گرفتاریاں تقریباً 8 ماہ تک جاری رہیں، تاہم اجلاس میں موجود بعض قائدین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے 2019-20ء کی گرفتاریوں کے بارے میں ریمارک کرتے ہوئے کہا کہ ان گرفتاریوں کے باوجود تمام لوگ دوبارہ بات چیت کی اسی میز پر جمع ہیں، بات چیت کررہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کس قدر مستحکم ہے، لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے حامیوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جمہوریت کا استحکام اور اس کی مضبوطی اس وقت بھی جموں و کشمیر میں دکھائی دی، جب ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں نے اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالا اور اکثر بحالی امن اور جمہوریت کے استحکام کیلئے اپنی جانیں دے کر اس کی قیمت ادا کی۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں انتخابی عمل کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم اس عمل کا حصہ بن کر اپنی انگلیوں پر نا مٹنے والی سیاہی لگاتے ہیں اور ووٹ ڈالنے کے بعد سیلفی لے کر دوسروں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے برعکس جموں و کشمیر کے اہم قائدین ہوں یا دوسرے لوگ ووٹ ڈالنے والے ہو یا مقابلہ کرنے والے جموں و کشمیر میں انتخابات حقیقی طور پر ان کیلئے موت اور زندگی کا معاملہ بن جاتے ہیں۔ بہرحال وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں سجاد لون موجود تھے۔ سجاد لون کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے علیحدگی پسند ہے جنہوں نے جمہوریت کی طرف رُخ کیا اور 2002ء کے اسمبلی انتخابات میں نیابتی امیدواروں کو ٹھہرایا۔ یہ وہی سجاد لون ہے جنہوں نے کہا تھا کہ مودی ان کے بڑے بھائی ہیں۔ سجاد لون کو موافق مودی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔ ہاں…!مذاکرات کے اس دور کو ایک تبدیلی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی نے آخر میں یہی کہا کہ دل کی دوری اور دلی کی دوری دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حالات کس طرح تبدیل ہوتے ہیں اور کیسے منجمد رہتے ہیں۔ مذکورہ تمام حقائق کے باوجود یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ نفرت پھیلانے والے اور شرمناک و متعصبانہ نظریہ کے حامل پرائم ٹائم اینکرس ، کشمیر ، کشمیری عوام اور اہم سیاسی قائدین کو بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے اور کشمیری قائدین و حکومت کے مذاکرات پر یہ میڈیا اور اینکر جس انداز میں خاموش ہیں، ان کی خاموشی سب کچھ بیان کردیتی ہے۔