کھانا کھانا تو پسند ہے مگر ؟

   

محمد مصطفی علی سروری
دوپہر کا وقت ہے۔ ایک مسلم اقلیتی انتظامیہ کے تحت چلائے جانے والے انگلش میڈیم کے ہائی اسکول کا منظر ہے۔ لنچ کے بعد دوبارہ کلاسز کا آغاز ہوچکا ہے اور صبح کی کلاسز کے مقابل لنچ کے بعد کی کلاسز کے دوران زیادہ طلبہ واش روم جانا چاہتے ہیں لیکن اسکول کے واش روم کو جانے والا ہر طالب علم شکایت کر رہا ہے کہ سر واش روم اتنے خراب ہیں کہ ہم لوگ اس کو استعمال نہیں کرپا رہے ہیں۔ اسکول کے سوپر وائزر کو بلا لیا گیا اور واش روم صاف کرنے والے ورکرس کو بھی فون کیا گیا کہ وہ جلدی اسکول کو پہنچیں۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر و ٹیچرس نے فوری طور پر اپنے اسٹاف روم کے واش روم کو بچوں کے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
سوپر وائزر نے اپنے یہاں موجود ورک چارٹ کی مدد سے پرنسپل کو بتلایا کہ ہر روز کی طرح آج صبح بھی واش روم کی باضابطہ صفائی کی گئی اب جو گندگی بھری ہوئی ہے وہ دراصل بچوں کی ہی پیدا کردہ ہے۔ یہاں تک کہ ڈرینج بھر جانے کابھی خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔ خیر تھوڑی دیر بعد میں پلمبر اور واش روم صاف کرنے والے اسکول آگئے اور سوپر وائزر انہیں اپنے ساتھ لے کر واش رومس میں چلا گیا۔ پندرہ تا بیس منٹ میں سوپر وائزر واپس پرنسپل کے روم میں آگیا اور جو بات بتلائی وہ اسکول پرنسپل کے لیے بڑی تعجب ہی نہیں حیرت کی بھی تھی۔
سوپر وائزر نے بتلایا کہ واش روم کو تو اس کے آدمیوں نے ہر روز کی طرح اچھی طرح صاف کیا تھا اور اب اصل مسئلہ یہ تھا کہ طلبہ نے اپنے بچے ہوئے کھانے، روٹی، سالن اور تو اور چاول بھی واش روم میں موجود واٹر فلش میں ڈال دیئے۔ تھوڑی ہی دیر میں پلمبر اور واش روم صاف کرنے والے کچرے ڈالنے والی پلاسٹک کی ڈسٹ بن لے کر پرنسل کے روم میں آگئے اور پانی میں بھیگاکھانا، روٹی کے ٹکڑے، گوشٹ کی بوٹیاں، شامیاں سب لاکر بتلانے لگے۔ اسکول کی آئی مائوں اور ٹیچرس کو بھی بلاکر بتلایا گیا اور ان سے پوچھا گیا تو ایک لیڈی ٹیچر نے اسکول کے پرنسپل کو بتلایا کہ بچے لنچ کے دوران کھانا، سالن، چاول، روٹی اور جو بھی چیز ٹفن میں ہوتی ہے اس کو اسکول کے صحن میں رکھے ڈسٹ بن میں ڈالنے لگے تھے۔ تب دینیات کی ٹیچرس نے طلبہ کی کونسلنگ کی کہ کھانے کی چیزیں سالن ہو یا روٹی اللہ کا رزق ہیں ان کو ایسے نہیں پھینکنا چاہیے اور ساتھ ہی تمام طلبہ کو وارننگ دی گئی کہ جو کوئی اپنے ٹفن کا کھانا ڈسٹ بن میں پھینکے گا ، اس کو سزا دی جائے گی اور لنچ بریک کے دوران بچوں پر نظر رکھی جانے لگی اور کسی بھی اسٹوڈنٹ کو کھانے کی کوئی بھی چیز ڈسٹ بن میں پھینکنے سے منع کرنے اور ڈرانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ اپنے ٹفن کے کھانے کو بیت الخلاء اور واش روم میں ڈالنے لگے۔ایک اسکول کی خاتون ہیڈ مسٹریس نے بتلایا کہ جب ان کے اسکول میں بچوں کو گھر کا کھانا ہی ٹفن میں لانے کے لیے پابند کیا گیا تو بچے ٹفن میں گھر سے کھانا تو لانے لگے مگر یہ کھانا کھانا خود بچوں کے لیے مشکل بن گیا۔ کوئی رات کی بچی ہوئی بریانی لاتا تو کوئی تازہ کھانے کے ساتھ رات کا باسی سالن۔ اگر کوئی گھر کی بنی ہوئی روٹی بھی لارہا ہے تو وہ روٹی دوپہر کے وقت تک ایسی ہوجاتی کہ بچوں کے لیے اس کو کھانا مشکل ہوجاتا۔

بہت سارے اسکولس میں نہ صرف فاسٹ فوڈ لانا منع ہے بلکہ باہر کا کھانا اڈلی، دوسہ جیسے آندھرائی کھانے لانے سے بچوں اور والدین کو پابند کیا گیا ہے۔ والدین اور خاص کر مائوں سے اسکول انتظامیہ اپنی میٹنگوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعہ سے بارہا اس بات کی درخواست کر رہا ہے کہ بچوں کو خاص کر صبح کا ناشتہ ضرور کروائیں اور پھر دوپہر کے ٹفن کے ساتھ اسکول روانہ کریں۔
ایک اسکول کے طالب علم کو جب اپنے ٹفن کی روٹی پھینکتے ہوئے اسکول کے واچ مین نے دیکھ لیا تو بلاکر پوچھ لیا کہ بیٹے تم نے اپنا ٹفن کیوں نہیں کھایا اور پھر روٹی یہاں باہر کیوں پھینک رہے ہو تو شائد پانچویں جماعت کا لڑکا تھا جو کہنے لگا ارے واچ مین انکل آپ خود دیکھ لو روٹی کیسی ہے؟ کل رات میں ڈیڈی باہر سے لائے تھے مجھے تو رات میں ہی نہیں کھائی گئی لیکن ممانے اسی روٹی کو گرم کر کے ٹفن میں رکھ دیا۔ میں نے 20 روپئے لائے تھے۔ دوپہر میں کینٹین سے سموسے لے کر کھالیا۔ اب گھر کو ٹفن میں روٹی واپس لے جائوں تو مما مجھے ماریں گی اور پھر مجھے پاکٹ منی بھی نہیں ملے گا۔ پہلے تو میں ہر روز اڈلی، وڈا اور اپما ٹفن میں لالیتا تھا لیکن اسکول میں جب سے Home made food کا Rule آیا ہے مما مجھے جو ٹفن دیتی ہیں وہ مجھے اکثر کھایا نہیں جاتا، اس لیے میں گھرجانے سے پہلے ٹفن کو پھینک دیتا ہوں۔ واچ مین نے بچے سے کہا کہ بیٹا تم اپنا ٹفن اسکول میں کام کرنے والی کسی آیا ماں کو کیوں نہیں دیتے باہر پھینکنے سے تو اچھا ہے کہ کسی کا پیٹ بھر جاتا۔ بچے نے فوری جواب دیا کہ ارے انکل آیا ماں کو بھی میرا ٹفن پسند نہیں آیا۔ ایک بار انہوں نے میرے ٹفن کی رومالی روٹی تو لے لی لیکن سالن خراب ہوگیا بول کر واپس کردیا تھا۔
اسکول کی ہیڈ مسٹریس کا سنایا واقعہ ہو یا واچ مین کی سنائی ہوئی کہانی کیا یہ سب جھوٹ ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ان واقعات میں کہیں نہ کہیں سچ ہے کہ گھروں میں اب کھانوں کی لذت باہر کے کھانوں کے مقابلے ماند پرنے لگی ہے؟ شہر کے کسی بھی مسلم اکثریتی علاقے کا مشاہدہ کرلیجیے۔ دن میں ہی نہیں رات کے اوقات میں بھی اور وہ بھی رات کے ایک ایک بجے تک بھی ہوٹلس کھانا کھانے والوں سے ایسی بھری ہوئی ہوتی ہیں کہ کھانا بک نہیں رہا ہے بلکہ مفت میں تقسیم ہو رہا ہے۔ کیا یہ لوگ مسافرین ہیں جو ہوٹلوں میں نہاری پائے، بھیجہ پالک سے لے کر اڈلی دوسہ، کھچڑی قیمہ، بریانی ، کباب کھانے کے لیے کھڑے ہیں۔ ان میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کے اپنے گھر اور اپنی فیملیز بھی ہیں۔ ان سب کے باوجود باہر کھانا کھانے کی عادت بڑی تیزی سے بلکہ وبائوں کی طرح پھیلتی جارہی ہے اور ہمارے گھروں کے چولہے کے پکوان اور ان پکوانوں کی لذت اب بازاری کھانوں میں تلاش کی جارہی ہے۔
جی ہاں یہ اسکول کے بچے راتوں کو باہر جاکر کھانا نہیں کھارہے ہیں لیکن یہ بچے دیکھ رہے ہیں، ان کے گھر میں بڑے لوگ باہر کا کھانا نہ صرف بڑے شوق سے کھارہے ہیں ، بلکہ اس کا پارسل بھی گھر منگوارہے ہیں۔ اپنے گھر سے بچے اچھی چیزیں بھی سیکھتے ہیں صرف اچھی عادتیں ہی نہیں بلکہ بہت کچھ گھر سے ہی سیکھتے ہیں ۔
19؍ فروری 2019 کو این ڈی ٹی وی نے آندھرا پردیش سے ایک خبر دی کہ 9 ویں جماعت کے دو اسکولی طالبات کو کلاس روم میں شراب نوشی کرتے ہوئے پکڑا گیا اور انہیں اسکول سے خارج بھی کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسکول کی یہ لڑکیاں اپنے ساتھ باٹل میں شراب اور سافٹ ڈرنک ملاکر کلاس میں پی رہی تھیں اور ان کے پاس سے آنے والی شراب کی بو اور ان کے غیر معمولی رویہ کو دیکھ کر اسکول ٹیچرس نے انہیں پکڑ لیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کے گھر میں والد خود شراب پیتا ہے اور والد کی بچائی ہوئی شراب کو چکھ کر ہی انہیں بھی شراب کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ گھر میں بچی ہوئی شراب اپنے ساتھ اسکول کو بھی لانے لگیں۔ (بحوالہ اوما سُدھیر کی رپورٹ NDTV.com)
اسکول کی لڑکیوں کے شراب کے عادی بننے کی خبر پر قارئین چونکنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب توایسی لڑکیاں تعلیم کے میدان سے آگے بڑھ کر روزگار کے میدان میں آچکی ہیں جو شراب نوشی کر رہی ہیں۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 26؍ جنوری 2019ء کو ایک خبر شائع کی تھی جس کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں سائبر آباد کے علاقے میں شراب پی کر گاڑی چلانے کی پاداش میں 6 خواتین کو قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
قارئین ہمارے آج کے اس کالم کا موضوع لڑکیوں کی شراب نوشی نہیں ہے بلکہ وہ مسئلہ ہے جس کو سب لوگ بخوبی جانتے ہیں، وہ یہ کہ آج کے دور میں لڑکیاں اور خواتین دنیا کے ہر میدان میں کامیابی کے پرچم بلند کرتی جارہی ہیں اور اگر کسی میدان سے اور مقام سے لڑکیوں کے قدم اکھڑتے جارہے ہیں تو وہ پکوان اور چولہے کی جگہ ہے۔
لڑکیاں پکوان کرنا نہیں جانتی ہیں تو شادی کے بعد کی زندگی میں بھی ان کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایم اے رشید، فلک نما، حیدرآباد کے اے سی پی ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ لڑکیاں جب شادی کے بعد پکوان میں کتناتیل استعمال کرنا ہے نہیں جانتی ہیں تو اس وجہ سے بھی میاں بیوی اور بہو و سسرال والوں کے درمیان تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔
ان کے مطابق ایک واقعہ میں بہو اور سسرال والوں کے درمیان گھر میں پکوان کے لیے زیادہ تیل استعمال کرنے پر جھگڑا اس قدر شدت اختیار کرگیاکہ مسئلہ پولیس سے رجوع کیا گیا۔
اسکول جانے والے بچوں کی صحت کے لیے، گھر سے باہر رہ کر کام کرنے والے مرد حضرات کے لیے اور خود لڑکیوں و خواتین کی صحت مند زندگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکیوں کو صحت مند پکوان کی تربیت فراہم کی جائے اور وہ بھولا ہوا سبق دوبارہ پڑھایا جائے کہ دنیا بھر کی ترقی کا سفر ادھورا ہے جب تک انسان کی صحت ٹھیک نہ ہو اور صحت مند زندگی کے لیے صحت مند کھانے کی لازمی شرط ہے۔ اور ہمارے اپنے گھر کے چولہوں سے زیادہ محفوظ اور صحت مند پکوان کی جگہ دوسری کوئی نہیں ہوسکتی ہے، تو پھر کیوں نہ گھروں کے پکوان کو دوبارہ لذیذ، دلچسپ اورذائقہ دار بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو اپنی زندگیوں کے متعلق صحیح فیصلہ کرنے اور اپنے متعلقین کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ (آمین )
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com