کیاہوا جب انہوں نے مجھ سے کہاکہ ”اپنے ملک واپس چلے جاؤ‘‘۔ کارتک رام کرشنن

,

   

سی این این۔ ہائی اسکول میں 28سال قبل وہ لوگ جنھوں مجھ پر فقرے کسے تھے ’’اپنے ملک واپس چلے جاؤ“ اور ”اس سے محبت کرو یا اس کو چھوڑدو“۔اتوار کے روز جب امریکی صدر نے اسی طرح کا کچھ تبصرہ کانگریس اراکین پر کرتے ہوئے ٹوئم کیا‘

اس سے کچھ درد بھری یادیں تازہ ہوگئیں مگر کچھ امیدیں بھی پیدا ہوئی‘ وہ یہ کہ ہماری کمیونٹی نسلی جلاوطنی اور استحصال کی زبردستی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

امریکی خارجی پالیسی پر نسلی کشیدگی اور تنازعات عام طور پر 1990کے دہے سے تبادلے خیال میں ہے‘ اس وقت فارسی خلیجی کنگ اور رونڈی کنگ کے ساتھ مارپیٹ کی خبریں ائی تھیں۔

میں اپنے اسکول کے نیوز پیپر کا ایڈیٹر تھا اور میں نے کچھ حساس رائے گھریلو اور خارجی پالیسی کے متعلق لکھاتھا جو کئی دیگر ایڈیٹوریل رائٹرس لکھتے ہیں۔

تاہم میری بے باکی سے اسکول کے کچھ طلبہ خوش نہیں تھے‘ دھمکیوں کے ذریعہ انہوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔

اسکول کے اطراف واکنا ف میں ”مطلوب کے پوسٹرس“ لگائے اور کہاکہ اگر امریکہ میں جو چیز یں ہورہی ہیں وہ تمھیں پسند نہیں ہے‘ تو مجھے ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس چلے جانا چاہئے۔

اُس واقعہ سے قبل مجھے میرے اقلیتی موقف کا احساس ہوا۔ یہ قدامت پسندچھوٹاٹاؤن جو ماساچوسوتیس میں تھا‘ سیاسی مشکلات کا ایک علاقہ جو کہ ایک ایسی ریاست تھا جس نے آزاد خیال کے حامل سخت محبت کش تیڈ کینڈی اور ایلزبتھ وارین کوامریکہ سینٹ کے لئے بھیجا تھا۔

اور میں اسکول کے1600بچوں میں سے ان دس غیر سفید فاموں میں تھا(ان میں ایک دیگر میرا چھوٹا بھائی تھا)۔میرے خاندان نے جو بھی نسلی امتیاز کا سامنا کیاتھا

وہ دراصل نئے انگلینڈ کے طرز کا تھا‘ جس میں زیادہ خطرات اورتشدد کا خدشہ نہیں تھا مگر مذاق کے طور پرتوہین‘ بدسلوکی اور امتیازی سلوک عام تھا۔ ابتداء میں اسکولی لیڈرشپ کا واقعہ پر ردعمل حوصلہ افزانہیں تھا۔

مذکورہ اسکول پرنسپل نے سونچا کہ یہ ”مطلوب پوسٹرس“ کی ضرورت نہیں ہے مگر انہوں نے نہیں سونچا کہ وہ نسلی امتیاز پر مشتمل ہے۔

تاہم ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھیاور وقت گذرنے کے ساتھ وہ سمجھ گئے کہ ہمارے اسکول میں اقلیتی طلبہ کس طرح کی زندگی گذار رہے ہیں۔

انہیں اپنے دوستوں او رساتھیوں سے ضروری طور پربات کرنا بھی ہوگا‘ کیونکہ جب میں کچھ ماہ اپنے گریجویشن کی سند حاصل کرنے کی تقریب کے دوران خطاب کررہاتھا‘ فرضی وطن پرستی کے خطرات کی طرف میں نے اشارہ کیا جو ”چاہو یاپھر چھوڑ دو“ کی بنیاد پر مشتمل تھا‘ میری ستائش میں ٹیچرس‘ طلبہ اور سرپرست اور والدین کھڑے ہوکرتالیاں بجانے لگے۔

میری گریجویشن تقریب کے دوران جو کچھ میں نے کیامیرے جیسے ناقدین کے لئے جو امریکہ سے ان کے مقابلے میں جو اس سونچ کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں ان سے کم محبت نہیں کرتے تھے

یہ تحریک آسان نہیں ایک سیاسی جنگ صدر اور ان کے ناقدین کے درمیان میں ہے۔

اس میں یہ دعوی کیاجارہا ہے کہ امریکہ کا بنیاد ی مقصد کی وضاحت کی جارہی ہے۔

اوراب یہ ہمارے طرف ہے انفرادی او رمشترکہ طور سے ہمارے ملک میں تیزی کے ساتھ فرضی وطن پرستی کے خطرات کو دور کرنے کاکام کیاجائے۔