کیا ‘ امریکہ ایک اور جنگ مسلط کریگا ؟

   

خونِ جگر سے نقشِ تمنا بنائے جا
اب زندگی سے فرصتِ ترکِ وفا نہ مانگ
کیا ‘ امریکہ ایک اور جنگ مسلط کریگا ؟
مشرق وسطی اور خلیج فارس اچانک ہی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے حالیہ دنوں میں مسلسل ایسے اقدامات کئے جا رہے تھے جن سے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ آیا امریکہ علاقہ میں ایک اور جنگ تو مسلط کرنا نہیں چاہتا ؟ ۔ ان اندیشوں کے دوران امریکہ نے آج بغداد ائرپورٹ پر نشانہ لگاتے ہوئے حملہ کردیا اور ایران کی القدس بریگیڈ کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا ۔ اس کے علاوہ ایک اور اعلی فوجی عہدیدار کی اس حملہ میں موت واقع ہوگئی ہے ۔ امریکہ کی جانب سے اس ساری کارروائی کو اپنے دفاع میںکیا گیا اقدام قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ امریکہ کی کھلی جارحیت ہے ۔ یہ امریکہ کی بین الاقوامی دہشت گردی ہے ۔ وہ کسی تیسرے ملک میں ایک مخالف ملک کے فوجی عہدیدار کو حملہ کرتے ہوئے ہلاک کردیتا ہے اور من مانی جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی بھی صحیح العقل گوشہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں داخلی مسائل شدت کے ساتھ پیدا ہوگئے ہیں۔ کئی ممالک اور وہاں کے عوام اپنے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اس دوران امریکہ نے در پردہ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ خلیج فارس میں ایک اور جنگ مسلط کرنے کی تیاری کرلی ہے ۔ گذشتہ چند دنوں سے امریکہ سے جو بیانات بھی سامنے آ رہے تھے ان سے بھی اشارہ مل رہا تھا کہ امریکہ علاقہ کے امن و درہم برہم کرتے ہوئے اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ کی جارحیت کے نتیجہ میں نہ صرف علاقہ کا امن درہم برہم ہوگا بلکہ دنیا بھر میں معاشی مسائل پھر سر ابھارنے لگیں گے کیونکہ علاقہ میں جنگ ہوتی ہے تو اس سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ درج ہوگا اور تیل کی سپلائی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گے ۔ گذشتہ سال ہی ایک سے زائد موقعوں پر آبنائے ہرمز میں تیل منتقل کرنے والے ٹینکروں پر حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں اور اس کیلئے بھی ایران و امریکہ کے مابین الزامات و جوابی الزامات کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف معمولی کارروائیاں بھی کی گئی تھیں۔
پنٹگان کا دعوی ہے کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بیرونی ممالک میں امریکی فوجیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اس حملے کا حکم دیا تھا ۔ تاہم یہ انتہائی رازداری میں کیا گیا فیصلہ تھا ۔ اس حملے اور میجر جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ امریکہ سے اس کا انتقام لے گا ۔ ایران میں فوجی یونٹوں کو بھی سرگرم کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی ایران کی جانب سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ شبہات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ علاقہ میں اگر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی ۔ علاقہ کے دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں اور خاص طور پر اسرائیل و سعودی عرب بھی اس جنگ کا نشانہ ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کی محض ہٹ دھرمی اور ناپاک عزائم کی تکمیل کی کوششوں نے سارے علاقہ کے امن کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ کی اس کارروائی کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ امریکہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسے مستقبل میں اس طرح کے اقدامات سے باز رکھنے اور علاقہ میں کشیدگی کو کم کرنے کیلئے سرگرم ہونے کی بھی کسی نے ابھی تک کوشش نہیں کی ہے ۔ کسی نے امریکہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسے ایسی حرکتوں سے باز رکھنے کی بات بھی نہیں کی ہے ۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ تمام مخالفین اور دشمنوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایران ان مجرمین سے انتقام لے گا ۔ حالانکہ قاسم سلیمانی کی موت تکلیف دہ ہے لیکن اس سے ایران کے حوصلے دوگنے ہوئے ہیں اور دشمنوں کو اب انتقامی کارروائی کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علاقہ میں صورتحال میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی اور امن متاثر ہوگا ۔ سارا علاقہ پہلے ہی جنگ اور خانہ جنگی سے تباہ ہورہا ہے اورا یسے میں امریکہ کی جانب سے جارحیت اور فوجی کارروائی نے علاقہ میں کشیدگی کو انتہائی حدود تک بڑھا دیا ہے ۔ اقوام متحدہ اور دوسرے ذمہ دار ممالک کو امریکہ پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اسے مزید جارحیت سے روکا جاسکے ۔