کیا اکثر نیوز چیانلز عام آدمی کی آواز ہیں؟

   

رویش کمار
کیا آپ واقعی محسوس کرتے ہیں کہ نیوز چیانلز عام آدمی کی آواز بنے ہیں؟ اس سوال کے تعلق سے سوچئے اور اپنے آپ سے پوچھئے کہ آیا آپ کی آواز حکومت تک پہنچ رہی ہے یا جو مسائل حکومت کو پسند ہیں وہی آپ تک چیانلوں کے ذریعے پہنچائے جارہے ہیں۔ اس فرق کو سمجھنے پر آپ جان جائیں گے کہ جب آپ اپنے مسائل لے کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں تب زیادہ تر معاملوں میں وہاں چیانلز نظر نہیں آتے۔ یعنی کچھ ایسا معاملہ کہ آپ کے مسائل کے آپ خود ذمہ دار ہو؛ حکومت یا اس کی پالیسی نہیں۔
نیوز چیانلوں نے بار بار مشق کے ذریعے آپ کو تبدیل کردیا ہے۔ معلومات اور سوالات آسانی سے غائب ہوچلے ہیں۔ کوئی سیاسی ایجنڈے کے ساتھ درس دینا ہی درس ہے۔ کئی لوگ سیکھ بھی رہے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے کہ عام آدمی میڈیا کے اس گوشے سے اپنی پریشانیوں کے ساتھ غائب ہوگیا ہے۔ آپ اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہو۔ 11 لاکھ قبائلی لوگوں کو ان کی زمینات سے بے دخل کیا جانے والا ہے۔ یہ باتیں چیانلوں کی دنیا سے غائب تو نہیں ہوئی، لیکن اگر 900 چیانلوں کے منجملہ 2 ہی آگے آئے ہیں تو سمجھئے کہ اسے نظرانداز کردیا گیا۔ جب 11 لاکھ افراد سے متعلق نیوز معدوم کردی گئی تب کیا آپ واقعی مانتے ہیں کہ جس میڈیم (ذریعہ ابلاغ) کے روبرو آپ بیٹھے ہو وہ آپ کی آواز کا نمائندہ ہے؟ وہ آپ کی آواز کا نمائندہ ہے یا آپ اس کے پروپگنڈے کے نمائندے بنتے جارہے ہو؟ محض تماشائی بن جانے پر چیانل کو ریموٹ سے بدلنے کی ضرورت نہیں۔

یہ نیوز ان لوگوں کی نہیں جو پنشن چاہتے ہیں۔ لیکن یہ افراد پنشن کی ہی دین ہے۔ یکایک کچھ بڑی تبدیلی ہوتی ہے۔ 2004ء سے پرانا پنشن سسٹم ختم کردیا گیا۔ حال میں پنشن کے تعلق سے دہلی میں معمولی نوعیت کا مظاہرہ ہوا۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ لوگ پنشن کا مسئلہ ٹی وی کے روبرو بیٹھ کر دیکھ پائیں گے کیونکہ وہ بھی پروپگنڈہ کے ذریعے نقصان پہنچائے جاچکے ہیں۔ ہندو۔ مسلم مسائل بھی اُن کے ذہنوں میں ہونے چاہئیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ جب ’جنتر‘ ایسے مسائل کے ساتھ ’منتر‘ کو آتا ہے، وہ میڈیا میں اپنا مستحقہ مقام پاسکتا ہے۔ یہ بالکلیہ ممکن نہیں کہ ہر احتجاجی مظاہرے کا احاطہ کیا جائے، لیکن پنشن جس طرح کا معاملہ ہے اسے دیکھتے ہوئے میڈیا کیوں اس مسئلے سے دور بھاگ رہا ہے؟ ایم پی قانون ساز پنشن لیں گے مگر ملازمین کو پنشن کی فکر نہیں کریں گے۔ اگر نیو پنشن اسکیم اتنا ہی اچھا پلان ہے تو سب سے پہلے ایم پیز اور ایم ایل ایز پر اس کا اطلاق ہونا چاہئے۔ جو لوگ ملک کے مختلف حصوں سے دہلی کو آئے، نعرے بلند کئے، وہ
کتنے بے یارومددگار ہیں مگر کسی نے کوئی نوٹ نہیں لیا۔

وہ تمام سمجھ چکے ہیں کہ آخری تنخواہ کا نصف حصہ پرانے پنشن میں شامل ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ نئی پنشن اسکیم میں کس قدر حصہ شامل رہے گا۔ اگر ان لوگوں کو کسی کمرے میں بند کردیا جائے اور قوم پرست شاعروں کی نظمیں گائیں، تو میرا دعویٰ ہے کہ پنشن کی بحالی نہیں ہوگی، بلکہ وظائف ہی موقوف ہوجائیں گے۔ ان لوگوں کو خود اپنے آپ سے بھی لڑنا ہے۔ وہ عوام ہیں یا چیانلوں نے انھیں ناظرین بنادیا ہے۔ ہمارے رفیق کار راجیو رنجن جنتر نے منتر کی صورتحال دیکھی۔ آل انڈیا اسٹیٹ گورنمنٹ اسٹاف فیڈریشن کے ایک لیڈر سے بات کی۔
پنشن عالم گیر مسئلہ رہا ہے۔ میڈیا بھلے ہی نظرانداز کرے لیکن عوام اس مسئلے پر سڑکوں پر آتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملازمین کو کنٹراکٹ پر نہ رکھا جائے۔ جو کنٹراکٹ پر ہیں اور جنھیں پنشن حاصل نہیں ہورہا ہے، ان کا ضمیر اپنے مطالبے یا جذباتی مسائل کی اساس پر ووٹ دے سکتا ہے۔ ان لوگوں کیلئے اپنے مطالبات پر فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آنے والا الیکشن ووٹر شہریوں کی پسند بھی ہے۔
پونے میں اسٹوڈنٹس کا معاملہ دیکھئے جو 15 دنوں سے ڈائس پر بیٹھے ہیں۔ وہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کو بطور اسٹائپنڈ ترتیب وار 5,000 اور 8,000 روپئے حاصل ہوتے تھے۔ یونیورسٹی نے یہ ادائیگی بند کردی۔ تعلیمی سال 2018-19 کیلئے داخلہ لے چکے اسٹوڈنٹس کو 10 ماہ بعد بھی اسٹائپنڈ نہیں ملا ہے۔ ان میں سے کئی غریب اور اول نسل کے طلبہ ہیں۔ پونے میں 8 تا 20 فبروری یہ اسٹوڈنٹس بند رہے۔ 12 روزہ محروسی کے بعد کوئی شنوائی نہ ہوئی، جس پر طلبہ نے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ ان میں 5 لڑکیاں اور 3 لڑکے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ قبائلی پس منظر والے اسٹوڈنٹس اتنے غریب ہیں کہ اسٹائپنڈ موقوف کردینے کی وجہ سے انھیں 150 روپئے کسی طرح پیٹ بھرنے کیلئے خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ ان اسٹوڈنٹس کا مطالبہ ہے کہ ایم فل طلبہ کو 18 ماہ اور پی ایچ ڈی کیلئے 4 سال کا اسٹائپنڈ حاصل ہو۔ اس مسئلے پر پونے یونیورسٹی کو بند کردینے پر زور دیا گیا ہے۔اُدھر کرناٹک بی جے پی ایم پی سے لے کر بنارس میں بی ایچ یو کے پروفیسر پولیٹیکل سائنس تک میرے خلاف محاذ بنایا گیا ہے۔ میرا نمبر منظرعام پر لایا گیا۔ ایم پی شوبھا نے کئی جرنلسٹوں کی تصاویر ٹوئٹ کئے اور غداروں کو سبق سکھانے کیلئے کہا۔ بی ایچ یو کا یہ پروفیسر بنارس بی جے پی میں بھی سرگرم رہا ہے۔ یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ افواہیں کون پھیلا رہے ہیں اور کون ایسی افواہوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ گالیاں بکنے والے محب وطن نہیں ہوسکتے۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ جدوجہد آزادی کیلئے لڑنے والے ہمارے قائدین گالی گلوج کیا کرتے تھے؟ آزاد سے بھگت سنگھ اور گاندھی تک ہر کسی نے شائستہ زبان استعمال کی۔ بعض لوگوں نے مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی، جس کی شکایت پولیس میں درج کرائی جاچکی ہے۔ ایک درخواست ہے کہ اب جبکہ میرا نمبر ظاہر ہوچکا ہے، کوئی فون کال یا مسیج کرنے سے قبل آپ یقینی طور پر تمیز سے کام لیں۔ مبارکبادیاں، نیک خواہشات، صبح بخیر کے پیامات، ہیلو وغیرہ جیسے پیامات بھیجنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

لوگ مجھے عجیب طرح کے مسائل لکھنے لگے ہیں، لیکن 22 سالہ عملی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی نے لائبریری کی خاطر لکھا ہے؛ وہ بھی دہلی کے مضافات سے۔یہ لکھا کہ ہم لوک سبھا حلقہ ساؤتھ ویسٹ دہلی کے پڑوسی اسمبلی حلقہ کے مکین ہیں۔ میرے علاقہ میں لائبریری کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ پتہ نہیں کتنے اسٹوڈنٹس کو پٹیل نگر یا سروجنی نگر جانا پڑتا ہوگا جو گورنمنٹ لائبریری سے 45 کیلومیٹر دور ہے۔ موجودہ طور پر اسٹوڈنٹس کو یہاں پرائیویٹ لائبریریز جانا پڑتا ہے اور اس کا ماہانہ خرچ 1,000 روپئے تا 2,000 روپئے آتا ہے، جو ملک میں دیگر طلبہ کیلئے شاید مشکل نہیں ہے۔ اس علاقہ میں لائبریری میں بڑھتی دلچسپی لائبریری کی ضرورت میں اضافہ کررہی ہے۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ اس ملک میں دہلی کے قرب و جوار والے طلبہ اپنے گاؤں میں لائبریری کے فقدان پر مجھے مکتوب لکھیں گے۔ خط لکھنے والے نے بتایا کہ متعلقہ ایم پی اور ایم ایل اے بھی اس مقام کو گئے لیکن لائبریری کا جائزہ لینے کے بجائے وہ گاؤں کی طرف چل پڑے۔ دہلی کے مضافات کے لڑکوں نے لائبریری طلب کی ہے، لائبریری ہونا چاہئے۔ ہمیں لوگوں کے مسائل کا اندازہ نہیں ہوتا ہے، مگر عوام اپنا نقطہ نظر جانتے ہیں۔
یہ اور معاملہ ہے کہ عوام پر ٹی وی اپنا مسئلہ تھوپتا ہے اور اُن کے مسائل دفن ہوجاتے ہیں۔ 20 ڈسمبر کو ملک بھر سے خواتین ممبئی میں جمع ہوئیں اور وہ 22 فبروری کو دہلی آئیں۔ ان خواتین میں ہمت ہے کہ وہ سماج کا سامنا کرسکتی ہیں۔ ادیتی راجپوت ان خواتین سے بات کرنے گئیں۔ جنسی تشدد اکثر و بیشتر گھروں میں ہی ہوتا ہے، وہ گھر جہاں مہذب ہندوستانی فیملی مقیم ہونا چاہئے۔ 24 ریاستوں کے 200 اضلاع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ لگ بھگ 25,000 خواتین اس قافلے میں شامل ہوئیں، جہاں جہاں سے قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ دہلی کو آنے تک تعداد میں کمی ضرور ہوئی لیکن جو قومی دارالحکومت کو آئے، اُن کی روداد پر توجہ دینا چاہئے۔
ravish@ndtv.com