کیا تین طلاق کو مجرمانہ عمل قرار دینا ضروری ہے؟

   

رام پنیانی
مودی حکومت 2.0 کی جانب سے جون 2019ء میں پارلیمنٹ میں متعارف کردہ ایک بل کے تعلق سے مباحث ہورہے ہیں۔ شاید اِس حکومت کی جانب سے یہ پہلی بڑی کوشش ہے جو ’مسلم بہنوں‘ کو جنس کی بنیاد پر انصاف دینے کے استدلال پر مبنی ہے۔ مودی حکومت 1.0 نے اسی طرح کا بل متعارف کرایا تھا، لیکن یہ قابل عمل نہیں بن سکا کیونکہ لوک سبھا میں منظور کئے جانے کے باوجود برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اسے راجیہ سبھا میں منظور نہیں کرا سکی، جہاں اسے اکثریت حاصل نہیں ہے۔ مودی حکومت 1.0 کا وہ بل 2017ء کے سپریم کورٹ فیصلے کے پس منظر میں سامنے آیا تھا، جس میں ایک نشست میں تین طلاق کو غیردرست قرار دیا تھا۔ حکومت کا اب اس بل کو منظور کرانے کی عجلت کیلئے استدلال یہ ہے کہ سابقہ حکومت میں اسے منظور نہیں کرایا جاسکا، اور اس مدت میں طلاق ثلاثہ (ایک نشست میں) کے تقریباً 200 کیس درج ہوئے ہیں۔
اول یہ کہ میں سمجھتا ہوں تین طلاق اور ’ایک نشست میں‘ تین طلاق کے تعلق سے کچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔ قرآن کے مطابق کسی شوہر کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ کار طلاق ثلاثہ ہے۔ اس عمل میں ایک مرتبہ طلاق کہنا ہے، جس کے بعد ایک مدت کے دوران دونوں طرف کے بزرگ اور ثالث حضرات مل کر مصالحت کی کوششیں کرتے ہیں۔ اگر اس میں ناکامی ہوجائے تو لفظ ’طلاق‘ دوسری مرتبہ کہتے ہیں۔ دوبارہ وقت ملتا ہے جس میں دونوں طرف کے لوگ مصالحت کی سعی کرتے ہیں اور اگر یہ ناکام ہوجائیں تو تیسری مرتبہ قطعی طور پر طلاق کہتے ہیں جو شادی شدہ جوڑے کا رشتہ ختم کردیتی ہے۔ قرآن کے مطابق ’’دو ثالث مقرر کرلو، ایک شوہر کی فیملی سے اور دیگر بیوی کی طرف سے، اگر وہ امن و سکون کے خواہشمند ہوں تو اللہ اُن میں مصالحت کا سبب پیدا کردے گا (4:35)… لہٰذا، جب وہ اپنی مقررہ میعاد کی تکمیل کرلیں تو مساویانہ شرائط پر رجوع کرلیں یا مساویہ شرائط پر جدا ہوجائیں اور اپنے میں سے دو گواہ بنالو جو انصاف پسند ہوں اور اللہ کے روبرو گواہی دیں۔ (65:2)۔‘‘ اس بات کا ذکر کم ہوتا ہے کہ خواتین کو بھی اپنی مرضی سے شادی کا رشتہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے جسے خلع کہتے ہیں جو قرآن کے مطابق درست ہے۔
بگڑے مذہبی رہنما جن کی اسلام میں کوئی مذہبی وقعت نہیں ہے، اور جو سماج میں کسی طرح اُبھر چکے ہیں، وہ اس مسئلہ پر سوسائٹی کو منفی سوچ پر ڈال چکے ہیں۔ ایسے علماء نے ایک نشست میں تین طلاق کے طریقہ کو منظوری دی ہے، جو قرآن کے احکام سے بعید ہے۔ یہ عمل گہرائی تک سرایت کرگیا ہے اور مسلم خواتین کیلئے مصیبت کا سبب رہا ہے۔
قرآنی طریقۂ طلاق جو طلاق ثلاثہ اور مسلم پرسنل لا کا حصہ ہے، اُس کے تعلق سے سپریم کورٹ نے بیان کیا: ’’یہ عمل (تین طلاق) ’پرسنل لا‘ کا جز ہونے کے سبب دستور کے آرٹیکل 25 کا تحفظ رکھتا ہے۔ مذہب عقیدہ کا معاملہ ہے نہ کہ منطق۔ یہ کسی عدالت کیلئے آزاد نہیں کہ کسی عمل کے بارے میں عقیدہ مساوات انسانی کو قبول کرلے، جبکہ وہ مذہب کا لازمی جز ہو۔‘‘
بعض مبصرین لفظ ’تین طلاق‘ کو ’بہ یک وقت تین طلاق‘ کی جگہ استعمال کررہے ہیں، جس کے تعلق سے سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے اور جو کئی مسلم اکثریتی ممالک میں ممنوع ہے بشمول پاکستان اور بنگلہ دیش۔ ہندوستانی فاضل عدالت نے پہلے ہی اس پر امتناع عائد کردیا ہے، لہٰذا بل کی کیا ضرورت ہے؟ جو کیس پیش آرہے ہیں وہ قانونِ ارض کی خلاف ورزی میں ہیں اور ان سے موجودہ قوانین کے ذریعے نمٹا جاسکتا ہے، جس کا معزز عدالت نے مجاز گردانا ہے۔ تو پھر کیوں بل اولین ترجیح ہے، یا سرے سے بل کی ضرورت ہی کیا ہے؟
مسلم خواتین کی زبوں حالی کے تعلق سے دونوں مودی حکومتوں کا موقف محض مگرمچھ کے آنسو بہانا معلوم ہوتا ہے۔ مسلم بہنوں کے بڑے مسائل کیا ہیں؟ مسلم مردوں کو محض بیف ساتھ رکھنے، کھانے اور اس کی تجارت کرنے کے شبہ میں لنچنگ کا شکار بنایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو ٹرینوں میں سفر کے دوران ہلاک کیا جاسکتا ہے محض اس شبہ پر کہ اُن کے ساتھ جو ٹفن باکس ہے اُس میں بیف ہے۔ پھر بھی ایسی حرکتوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
اب کسی مسلم کو چوری کے شبہ میں کھمبے سے باندھا جاسکتا ہے اور اسے ہلاک کرنے سے قبل ’جئے شری رام‘ بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بی جے پی میں سرکردہ قائدین ایسے بھی ہیں جو گائے اور بیف سے متعلق قتل کے ملزمین کو تہنیت پیش کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
سماجی عام فہم و ادراک کو بگاڑ دیا گیا ہے اور ہندو قوم پرستوں کے نام نہاد ذیلی عناصر اب ’جئے شری رام‘ کو نیا فرقہ وارانہ ہتھیار بنارہے ہیں تاکہ مذہبی اقلیتوں کو دھمکاکر مطیع بنایا جاسکے۔ مقدس گائے کے سبب ہماری معیشت میں جو عدم توازن پیدا ہوگیا ہے، اُس کا اثر مسلم گھرانوں پر پڑا ہے، ہماری مسلم بہنوں کی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جب شناختی مسائل پر غارت گری ہوتی ہے تو صرف مرد حضرات شکار نہیں ہوتے۔ اُس گھرانے کی خواتین بھی مصیبت میں پڑجاتی ہیں۔
جہاں حکومت مسلم خواتین کو بہ یک وقت تین طلاق دیئے جانے کے اعداد و شمار مستعدی سے جمع کرتے ہوئے پیش کررہی ہے، کیا وہ ایسی مسلم بہنوں کے اعداد وشمار بھی پیش کرنے کی زحمت کرسکتی ہے جو گائے۔ بیف، لوو جہاد، گھر واپسی اور رام مندر کے مسئلہ سے متعلق تشدد جیسے مسائل کے سبب مصیبت میں مبتلا ہیں؟ اور جب حکومت جنس کے مساوات کے تعلق سے بات کرتی ہے تو اس موضوع کے تعلق سے فکرمندی کی ستائش ضرور ہے لیکن وہ اعداد و شمار بھی ملاحظہ کرنا چاہیں گے جو 2011ء ڈیٹا کے مطابق ظاہر کرتے ہیں کہ 24 لاکھ خواتین کو اُن کے شوہروں نے چھوڑ دیا ہے! کیا کوئی قانون ہے جو خاطی شوہروں کی خبر لے جو طلاق دیئے بغیر خواتین کو پریشانی میں چھوڑ دیتے ہیں اور نان و نفقہ وغیرہ سے فرار اختیار کرتے ہیں؟ کیا کوئی قانون ہے جو ایسے خاطی شوہروں کو اُن کی اخلاقی ذمہ داریوں کے تعلق سے یاددہانی کرائے؟ تو پھر یہ جانبداری کیوں؟ ماہواری کی عمر والے گروپ کی پوری ہندو خواتین کو قدیم روایات کی بنیاد پر سبری مالا مندر میں داخلے سے روکا جاتا ہے اور سپریم کورٹ حکمنامہ کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنس کے مساوات کو دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں!
مسلم خواتین کے تعلق سے ظاہری تشویش کے ساتھ ساتھ مسلم مردوں کو مکروہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم خواتین کی مساوات کا پوری طرح احترام کرتے ہوئے یہ سمجھنا ہوگا کہ مرد اور خاتون مل کر ہی فیملی بناتے ہیں۔ مسلم مردوں کو تمام تر ظلم کا شکار بنانا، انھیں مجرم قرار دینا (جیسا کہ اِس بل میں بھی ہے) مسلم بہنوں کے حق میں کوئی بھلائی کا کام نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مودی 2.0 حکومت کو اس مسئلہ پر بعض حلیفوں سے اختلاف کا سامنا بھی ہے جیسے جنتا دل (یونائیٹیڈ) ، لیکن یقینی طور پر مودی 2.0 سے اقتدار کی خاطر جڑے ہوئے ہیں، کیونکہ اُن کے اختلافات سے بی جے پی کو حاصل زبردست اکثریت کے سامنے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ram.puniyani@gmail.com