کیا قانون کی ضرورت نہیں ؟

   

آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہئے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون
بی جے پی کے قائدین کی نظر میں قانون کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ آمرانہ طرز عمل کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ قانون کی دھجیاں اڑانے والی حرکتیں کر رہے ہیں اور قانون کی اہمیت کو ختم کرنے والے بیانات دے رہے ہیں۔ کہیں کسی کو بیف رکھنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے تو کہیں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر بلڈوزر چلایا جار ہا ہے ۔ کسی کی شناخت ہی بلڈوزر سے مربوط کردی گئی ہے ۔ قانون اور عدالتوں کے وجود پر سوال پیدا کرنے والے کام کئے جا رہے ہیں۔ اترپردیش میں خاص طور پر ملزمین کو ختم کرنے کے نام پر ان کا انکاؤنٹر کیا جا رہا ہے ۔ بے شمار انکاؤنٹرس ایسے ہیں جن پر سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور انہیں قتل کا نام دیا جا رہا ہے ۔ قانون کی آڑ میں ہونے والے یہ انکاؤنٹرس ایسے ہیں جن کی مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ اب بی جے پی کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ ہری نارائن راج بھر نے ایک متنازعہ بیان دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یو پی کے سیاستدان عتیق احمد کو جیل سے باہر لایا جانا چاہئے اور انہیں انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جانا چاہئے ۔ ہری نارائن راج بھر کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ یہ روایت بن گئی ہے کہ ملزمین کو عدالتوں سے سزائیں دلانے کی بجائے انہیں مبینہ فرضی انکاؤنٹرس میں گولی ماری جا رہی ہے ۔ بی جے پی لیڈر کے بیان سے سابق میں ہوئے کئی انکاؤنٹرس کے تعلق سے شبہات اور شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ راج بھر کا یہ اشتعال انگیز بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ چند ہی دنوں قبل عتیق احمد کے دو مبینہ ساتھیوں کو یو پی پولیس نے علیحدہ انکاؤنٹرس میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔ پولیس نے ہمیشہ کی طرح جوابی فائرنگ کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن یہ دعوے مشکوک ہیں اور خاص طور پر اس متنازعہ بیان کے بعد ان کی بھی تحقیقات کی ضرورت عیاں ہوگئی ہے ۔ اس بیان نے یہ شبہات پیدا کردئے ہیں کہ آیا واقعی ایسا ہوتا ہے کہ ملزمین کو عدالتوں سے سزائیں دلانے کی بجائے پولیس انہیں مبینہ فرضی انکاؤنٹرس میں ہلاک کردیتی ہے ؟ ۔ یہ الزامات تو بہت پہلے سے عائد کئے جاتے رہے ہیں اور اب ان کو تقویت مل گئی ہے ۔
بی جے پی لیڈر نے جو بیان دیا ہے اس پر ان کی بھی سرزنش ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف خود مقدمہ درج کیا جانا چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو پولیس اہلکار عتیق احمد کو گولی ماریں گے ان کیلئے آسمان کے دروازے کھل جائیں گے ۔ یہ ایک طر ح سے کسی کی جان لینے کیلئے کسی کو اکسانے جیسی حرکت ہے اور اس پر گرفت کی جانی چاہئے ۔ عتیق احمد ان دنوں گجرات کی ایک جیل میں کسی مقدمہ کے سلسلہ میں قید ہیں۔ انہیں یو پی میں ایک قتل کیس میں بھی ملزم بنایا گیا ہے ۔ عتیق احمد نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہے جس میں انہوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پولیس انہیں گجرات سے اترپردیش منتقل کرنے کی کوشش کرے گی اور اس دوران انہیں مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے ۔ یہ شبہات اب بی جے پی لیڈر کے بیان کے بعد بے بنیاد نہیں کہے جاسکتے ۔ یہ شبہات اور بھی تقویت پا جاتے ہیں کیونکہ خود برسر اقتدار جماعت کے ذمہ دار قائدین کی جانب سے اگرا س طرح کے بیانات دئے جاتے ہیں تو پولیس کی کارکردگی اور اب تک کئے گئے انکاؤنٹرس پر سوال پیدا ہونے فطری بات ہے ۔ پولیس کو اس طرح کے بیانات پر اپنی امیج کا خیال کرتے ہوئے ایسی بیان بازی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان پر قتل کیلئے اکسانے جیسا مقدمہ بھی درج کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے واضح کہا ہے کہ عتیق احمد کو جیل سے باہر لا کر انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جانا چاہئے ۔
یہ بیان اس ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے جس میں قانون اور عدلیہ کا کوئی احترام نہیں رہ گیا ہے ۔ اترپردیش میں پہلے ہی کئی کام ماورائے عدالت کئے جا رہے ہیں۔ عدالتوں سے فیصلے کروانے اور انصاف حاصل کرنے کی بجائے پولیس اور حکام طاقت اور اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے اقدامات کے ذریعہ عدالتی عمل کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عدالتوں کا وجود ان اقدامات کی وجہ سے بے معنی ہوسکتا ہے جبکہ ہندوستان میں عدلیہ سے کروڑہا عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان امیدوں کو ختم کرنے سے سیاستدانوں اور حکومتوں کو صد فیصد گریز کرنا چاہئے ۔ آمرانہ ذہنیت کا ہندوستان میں کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔