کیا مایاوتی وزیراعظم بنیں گی؟

   

راج دیپ سردیسائی
’’ایک روز، وہ بابا صاحب امبیڈکر کا خواب پورا کریں گی!‘‘ یہ دعویٰ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے بانی کانشی رام نے اُس خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا تھا جس نے ہمارے لئے چائے پیش کی تھی۔ یہ عشرہ 1990ء کے اوائل دہلی میں موسم سرما کی ایک دوپہر کی بات ہے جب ہم اُن کی سرکاری قیامگاہ میں تھے۔ میں نے شلوار قمیص میں زیب تن لیڈی پر شاید ایک دو مرتبہ نظر ڈالی اور کانشی رام کے دعوے پر ہلکے سے سر ہلایا۔ وہ ذات پات اور سیاست کے بارے میں ہماری پُرجوش گفتگو کے دوران زیادہ تر خاموش ہی رہیں۔ مایاوتی تب تک قومی منظر پر اچھی طرح نمودار نہیں ہوئی تھیں اور اس کے چند سال بعد ہی وہ چیف منسٹر اترپردیش بنیں اور خود کو ایسی سیاستدان میں ڈھالا جسے کمتر سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔
مجھے ماضی میں ’بہن جی‘ (مایاوتی) سے اُس ملاقات کی یکایک یاد آئی جب میں نے سماجوادی پارٹی (ایس پی) لیڈر اکھلیش یادو کو مایاوتی کے ساتھ جوائنٹ پریس کانفرنس میں اس امید کا اظہار کرتے دیکھا کہ آئندہ وزیراعظم یو پی سے ہوگا اور پھر انھوں نے بی ایس پی سربراہ کی سمت نگاہ ڈالی۔ کیا بہن جی واقعی ہندوستان کی پہلی دلت وزیراعظم بننے کیلئے سنجیدہ امیدوار ہیں؟ ایک مرحلہ ایسا بھی رہا کہ یہ سوال ضرور بکواس اور وہمی لگا ہوگا کیونکہ ماضی قریب کے انتخابات میں بی ایس پی کے مظاہروں میں تیزی سے انحطاط دیکھا گیا تھا۔ علاوہ ازیں، مایاوتی اور اُن کی فیملی کرپشن کے کئی الزامات سے گھری رہی ہے۔ اُن کا ایسا خراب امیج بھی بن گیا کہ وہ غلطیاں کرتی رہتی ہیں، سودے بازی کرنے والی سیاستدان ہیں، ایسی لیڈر ہیں جو مختصر مدتی فائدوں کیلئے اتحاد بناتی ہیں یا توڑ دیتی ہیں۔
اور پھر بھی، ایک اور زاویہ سے دیکھیں تو مایاوتی کو ہنوز سماج میں ہلچل پیدا کرنے والی طاقتور علامتی شخصیت سمجھا جاتا ہے، اُن کے والد کبھی مغربی یو پی کے ایک گرد بھرے ٹاؤن میں متحمل مزاج ڈاک ملازم ہوا کرتے تھے۔ اس ملک کے اونچے طبقے، میٹروپولیٹن میں اونچی ذات کے امیروں کیلئے مایاوتی کی ناکامیاں ہندوستانی سیاست کے سیاہ رُخ کو ظاہر کرتی ہیں لیکن دلت۔ بہوجن کی کثرت کیلئے وہ متاثرکن شخصیت ہیں۔ اونچے طبقے کی جانب سے حقارت اُن کی بعض تنقیدوں سے عیاں ہوجاتی ہے جب وہ مایاوتی کی بڑھتی دولت کی نشاندہی کرتے ہیں: کتنے برہمن۔ بنیا سیاستدان ہیں جن کی الیکشن کے موقع پر گولڈ اور سلور میں تولے جانے پر ہجو کی جاتی ہے؟ اور ’کٹ آؤٹ کلچر‘ اور دیگر ہم عصر نیتاؤں کی جانب سے خود کی غیرمحدود تشہیر کو کیا کہیں گے، یا پھر سنگین نوعیت کے کرپشن الزامات کا کیا کہئے جو کئی قائدین کے اطراف بھنور کی مانند ہے؟
مایاوتی کو لالچی و ضمیرفروش خودسر لیڈر کے خاکے میں ڈھالنا ایک ایسی سیاستدان کی پیچیدہ شخصیت کی منصفانہ یا پوری طرح عکاسی نہیں کرتی، جو تمام تر اندیشوں کے باوجود سماج کے حاشیے سے ہندوستانی سیاست کے قلبی حصے تک غیرمعمولی سفر مکمل کرچکی ہیں۔ یو پی کی چار مرتبہ کی چیف منسٹر کی حیثیت سے انھیں سخت جان، سنجیدہ اڈمنسٹریٹر، بالخصوص لا اینڈ آرڈر کے بارے مضبوط لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور جہاں بدعنوانی کے الزامات سنگین ہیں، وہیں ایک حقیقت نسبتاً کامیاب و کارکرد چیف منسٹر کی بھی ہے جس نے ’لال فیتا‘ سسٹم ختم کرتے ہوئے بڑے تیزگام انفراسٹرکچر پروجکٹس انجام دیئے جیسے نوئیڈا اور آگرہ کے درمیان جمنا اکسپریس وے۔
یہی وجہ ہے کہ مایاوتی کو امکانی متبادل غیرکانگریس، غیربی جے پی قیادت کے طور پر پیش کیا جانا بالخصوص ہندی پٹی کے کلیدی انتخابی میدان میں اُن کیلئے صاف صاف حکمت عملی والا انتخاب ہے جو کسی کو بھی وزارت عظمیٰ پر دیکھنا چاہیں گے مگر نریندر مودی دوبارہ وزیراعظم نہ بننے پائیں۔ وزیراعظم مودی کی 2014ء کے ’لہر‘ والے الیکشن میں زیادہ کامیابی کا ایک عنصر اُن کا غیرمعروف واڈنگر ٹاؤن کے متوطن ’چائے والا‘ کا امیج رہا، جو زبردست سیاسی چھلانگ لگاتے ہوئے 7، لوک کلیان مارگ پہنچ رہا تھا۔ اہل ’کامدار‘ کی حیثیت سے جس نے خاندانی ’نامداروں‘ کے خلاف اپنی لڑائی لڑی، وزیراعظم کو اس نظریہ میں نمایاں برتری دیتی ہے کہ مراعات سے عاری نیتا بھی سیاسی کہکشاں کے راہول گاندھی جیسے قائدین سے ٹکرا سکتا ہے۔
اس کے برعکس، 63 سالہ مایاوتی پربھو داس کی سیاسی زندگی ذات پات، جنس اور آمدنی میں امتیاز کے خلاف لڑائی کی کہیں زیادہ دلچسپ کہانی پیش کرتی ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی اور پیچیدہ ریاست پر حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالنے میں ایک سے زائد مرتبہ کامیاب ہوئیں۔ ’غریب دلت کی بیٹی‘ ایسا متاثرکن فقرہ ہے جسے زیر کرنا ماہر سیاسی مقرر جیسے مسٹر مودی کیلئے تک مشکل ہے، جو اپنے اوسط درجہ کے پس منظر کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ منتشر نظام حکومت میں جہاں ذات کی شناختیں ہنوز ووٹر کی پسند کا تعین کرتی ہیں، ’’بہن جی برائے پی ایم‘‘ کچھ اس نوعیت کا نعرہ ہے جو دلتوں کو متحدہ کرسکتا ہے اور وہ سوشل گروپوں کے وسیع تر مخلوط کیلئے اساس پیدا کرسکتا ہے جو سیاسی ہندوتوا کی بالخصوص اترپردیش میں بڑھتی لہر سے خوفزدہ ہیں۔
یہی باتیں وضاحت کرتی ہیں کہ کیوں اکھلیش یادو نے 25 سالہ یادو، دلت خصومت کو دفن کرتے ہوئے سیاسی ہواؤں کا رُخ آزمانے کیلئے آزمائشی غبارہ کو جلد چھوڑ دینے کو مناسب سمجھا۔ اعلیٰ منصب پر نظر رکھنے والے دیگر اپوزیشن قائدین ہوسکتا ہے ابھی اس تجویز کو قبول نہ کریں، لیکن ایسے نیشنل الیکشن میں جہاں علاقائی اتحادوں کا کلیدی رول ہوسکتا ہے، متعجب نہ ہوں اگر بی ایس پی کے ’ہاتھی ‘ کو سماجوادی پارٹی کی ’سائیکل‘ پر سوار ہوکر لکھنو سے دہلی تک سفر کرتے دیکھا جائے جہاں سیاسی صف بندیوں کی ازسرنو ترتیب ہوگی۔ چھوٹے بال والی سنجیدہ لیڈی جس سے پہلی بار میری ملاقات برسہابرس قبل ہوئی تھی، وہ زورآور سیاسی جنگجو میں تبدیل ہوچکی ہے جو ہوسکتا ہے ’بڑی وزارت‘ کیلئے واقعی سنجیدہ دعوے دار ہے، جس کی کبھی اُن کے سرپرست نے پیش قیاسی کی تھی۔
اختتامی تبصرہ : مودی کی مانند مایاوتی تحکم پسند سیاسی لیڈر ہے جن کو اُن سے سوال کیا جانا پسند نہیں۔ لہٰذا، ایک انوکھے موقع پر جب مجھے اُن سے انٹرویو کا موقع ملا، مجھے یاد ہے انھوں نے کرپشن کے بارے میں ایک سوال پر برہمی سے جواب دیا تھا۔ انھوں نے فوری جواب دیا: ’’آپ سب میڈیا کے لوگ اونچی ذات کے مانووادی ہیں!‘‘ وہ پوری طرح غلط (بھی) نہیں ہے: زیادہ تر نیوز رومس جیسا کہ بقیہ سوسائٹی کا معاملہ ہے، اہم اور اثردار عہدوں پر دلتوں کیلئے قابل نظرانداز گنجائش رکھتے ہیں۔
rajdeepsardesai52@gmail.com