کیا ہمارے سماج میں لڑکیاں محفوظ ہیں؟

   

رویش کمار
لڑکیوں کے ساتھ ریپ (عصمت دری) کے کیسوں کی سپریم کورٹ میں سنوائی ہونے لگی ہے۔ سپریم کورٹ چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس دیپک گپتا نے اخبارات کی رپورٹس کا ازخود نوٹ لیتے ہوئے ان کو پی آئی ایل (عرضی ٔ مفاد عامہ) میں تبدیل کیا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں ہائی کورٹ سے جمع شدہ ڈیٹا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کس قدر کھوکھلا سماج بن چکے ہیں؟ سپریم کورٹ نے سینئر وکیل وی گیری کو ثالث کے طور پر مقرر کیا تاکہ وہ اس کام میں عدالت کی مدد کریں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سسٹم ٹھیک ڈھنگ سے کام نہیں کررہا ہے جس طرح اُسے کرنا چاہئے۔ محض چھ ماہ یعنی جنوری 2019ء اور 30 جون 2019ء کے درمیان ریپ کے 24,212 کیس ہندوستان میں درج رجسٹر کئے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ماہ چار ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ بہ الفاظ دیگر ہر گھنٹہ پانچ سے زیادہ ریپ کیس ہوئے ہیں۔ ان میں سے 11,981 کیسوں کی تحقیقات جاری ہے اور محض 4,871 معاملوں میں پولیس نے انکوائری رپورٹ عدالت کو پیش کی ہے۔
سپریم کورٹ نے جاننا چاہا کہ کتنے خصوصی عدالتیں ’پاکسو‘ Protection of Children from Sexual Offences کے تحت تشکیل دی گئیں، اس ایکٹ کے تحت کتنے سرکاری وکلاء مقرر کئے گئے، کن کیسوں میں ایف آئی آر درج رجسٹر کی گئی، تحقیقات کس سطح پر چل رہی ہے، اور کن معاملات کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے؟ واضح رہے کہ 2012ء میں پاکسو ایکٹ بنایا گیا۔ اس کے تحت نابالغوں کے ساتھ ریپ کے مسئلہ کو وقت ِ مقررہ میں طے کرتے ہوئے فیصلہ سنانے کا انتظام کیا گیا۔ اس کے تحت پولیس کو واقعہ کے اندرون 24 گھنٹے عدالت کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔ چلڈرن ویلفیر کمیٹی کو بھی عدالت کے پاس رپورٹ داخل کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ کا حلفیہ بیان اندرون 30 یوم لیا جائے۔ پولیس پوری تحقیقات اندرون دو ماہ مکمل کرلے اور فرد جرم عدالت میں داخل کرے۔ ٹرائل اندرون چھ ماہ مکمل کرلیا جانا چاہئے۔ ان تمام انتظامات کے باوجود 24,212 کیسوں کے منجملہ صرف 911 کا فیصلہ ہوا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹ نہ لیا ہوتا تو مسئلہ مزید پھیل سکتا تھا۔ ملک کا کوئی علاقہ اس طرح کے معاملات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے سبب یہ آشکار ہوا کہ ریپ کے کیسوں میں ٹرائل کا سسٹم نہایت خراب ہے۔
اترپردیش میں نابالغوں کے ساتھ عصمت ریزی کے 3457 کیس درج رجسٹر ہیں۔ 51 فیصد معاملوں میں تحقیقات جاری ہیں۔ ابھی تک صرف 115 کیسوں (3% سے کچھ زائد) کی یکسوئی ہوئی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو پیش کردہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اعداد و شمار ہیں۔ اترپردیش جیسی ریاست میں معاملہ رفع دفع کردینے کا پورا اندیشہ ہے قبل اس کے کہ لڑکیوں کے ریپ کیس میں ٹرائل شروع ہو۔ بہار میں صرف دو فیصد کیسوں کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایسے 17 ریاستیں اور مرکزی زیرانتظام علاقے ہیں جہاں کچھ بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ان کا ٹریک ریکارڈ 0% ہے۔ مدھیہ پردیش واحد ریاست ہے جہاں اس معاملے میں شنوائی کا ریکارڈ بہتر ہے۔ وہاں 2389 کیسوں میں سے 1337 (56 فیصد) میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔

ہمارے سماج میں بچے کس قدر عدم سلامتی سے دوچار ہیں۔ نابالغوں کے ساتھ ریپ کی صورت میں ہم نے سزائے موت مقرر کی ہے۔ اس کے باوجود ریپ کے معاملوں میں کتنی کمی آئی ہے۔ شاید ان پر روک لگانے کا طریقہ کچھ اور ہے۔ شاید ایک سپریم کورٹ رولنگ ہونا چاہئے۔ دوسرا طریقہ ہماری سوسائٹی ہے۔ سزائے موت پر عمل کے ساتھ ہی علاقے میں عصمت ریزی کے معاملوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہ جذباتی سیاست کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
n بہار میں سیلاب کے سبب 12 اضلاع کے 546 پنچایتوں میں 25 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ درجنوں لوگ فوت ہوگئے۔ آسام کے 33 اضلاع میں سے 30 سیلاب کی زد میں ہیں۔ 83,000 افراد کو 183 ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ 43 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں دو درجن سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ سیلاب نے ریاستی دارالحکومت گوہاٹی کیلئے بھی خطرہ پیدا کردیا۔ زائد از 4000 دیہات زیرآب ہیں۔ بالائی آسام کا سڑک سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیش قیاسی کے ساتھ ریڈ الرٹ جاری کیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے چیف منسٹر سربانندا سونوال سے صورتحال معلوم کی اور مرکز سے ہر قسم کی مدد کا تیقن دیا ہے۔ چیف منسٹر کا کہنا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے۔ گورنمنٹ مشینری سے لے کر لیجسلیٹرز تک ہر کوئی راحت اور بچاؤ کام میں مصروف ہے۔ کازیرنگا نیشنل پارک کا 70 فیصد حصہ سیلاب کے معاملے میں مخدوش ہے۔ مجموعی طور پر آسام کے 26 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
n کیا POTA قانون کا بیجا استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں یہ سوال کیا۔ بی جے پی کے ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ نے کہا کہ ٹاڈا اور پوٹا کا بیجا استعمال ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں اور حیدرآباد کے واقعات میں دونوں قوانین کا غلط استعمال کیا گیا۔ اقلیتی برادری کے ملزمین کو بچانے کی ہدایات دی گئیں۔ جب اس نکتہ پر اسد الدین اویسی نے اعتراض کیا، تو وزیر داخلہ نے کہا، ’’سننے کی عادت ڈالئے اور سنئے‘‘۔

حیدرآباد میں مکہ مسجد دھماکہ کا معاملہ لیجئے۔ یہ واقعہ 18 مئی 2007ء کو پیش آیا۔ بم دھماکوں میں 18 افراد نے جان گنوائی۔ اپریل 2011ء میں یہ کیس سی بی آئی سے این آئی اے کو منتقل کیا گیا۔ اپریل 2018ء میں این آئی اے اسپیشل کورٹ نے اس کیس میں بعض ملزمین کو بری کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی ایجنسی ملزمین کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ بری ہونے والے ملزمین میں سوامی اسیمانند کا نام شامل ہے۔ کیا این آئی اے یہ کہنے کے موقف میں ہے کہ آخر اس کیس میں کیا ہوا کہ وہ کئی ملزمین کو مجرم قرار نہیں دے پائی؟ اب وزارت داخلہ کا پیش کردہ این آئی اے (ترمیمی) بل 2019ء پارلیمنٹ میں منظور ہوچکا ہے۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا، اور یہ دہشت گردی کو ہرگز برداشت نہ کرنے کی پالیسی پر عمل آوری کیلئے ضروری ہے۔ اپوزیشن نے کہا کہ یہ قانون انڈیا کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دے گا۔ اس قانون کے تحت این آئی اے کو انسانوں کی غیرقانونی منتقلی، ممنوعہ ہتھیاروں اور سائبر دہشت گردی جیسے معاملات کی بھی تحقیقات کا حق حاصل ہوا ہے۔ ایسے کیسوں کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی۔ کانگریس لیڈر منیش تیواری نے کہا کہ این آئی اے کو کسی تحدید کے بغیر ایسے اختیارات سونپے جارہے ہیں جو سیاسی عداوت کی بناء استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن کے الزامات مسترد کردیئے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا پوٹا کا غلط استعمال نہیں ہوا؟ انھوں نے 2002ء میں اکشردھام مندر پر دہشت گردانہ حملے کی مثال پیش کی۔ اور واجپائی حکومت کے حلیف سربراہ ایم ڈی ایم کے وائیکو کی 2002ء میں ہی گرفتاری کا بھی تذکرہ کیا۔ واجپائی حکومت کے وزیر قانون جانا کرشنامورتی نے کہا تھا کہ اس میں مرکز کا کوئی رول نہیں۔ لا سسٹم ریاست کا معاملہ ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ ادعا کرسکتے ہیں کہ پوٹا کا بیجا استعمال ہوا یا نہیں ہوا، لیکن کونسا قانون ہے جس کا استحصال نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے کیسوں میں نوجوانوں کو دس، دس سال قید رکھنے کے بعد سپریم کورٹ بری کردیتا ہے۔ اس کیلئے ریاست کوئی ذمہ داری نہیں لیتی۔ بابری مسجد انہدام کی برسی کے موقع پر مئی 2016ء میں پانچ موقعوں پر ٹرین میں دھماکے ہوئے۔ اس سلسلے میں تحقیقاتی ایجنسیوں نے کرناٹک میں گلبرگہ کے 20 سالہ نثارالدین احمد کو ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا۔پوٹا سے قبل ٹاڈا ایکٹ لاگو تھا۔ نثار 23 سال جیل میں رہا۔ نتیا رام کرشنن نے نثار کا کیس لڑا اور 43 سالہ نثار کو سپریم کورٹ نے ثبوت کے فقدان کی بناء بری کیا۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ غلط الزامات پر گرفتار کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے۔
ravish@ndtv.com