کیرالا اسمبلی میں قرار داد کی منظوری

   

کیرالا اسمبلی میں قرار داد کی منظوری
کیرالا اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون سے دستبرداری اختیار کرلی جائے ۔ اس قانون کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں منظوری دی جاچکی ہے ۔ یہ قانون سارے ملک میں تنازعہ کی وجہ بن گیا ہے اور پوری شدت سے اس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ طلبا اور نوجوان اس احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کر رہے ہیں۔مختلف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی اس تعلق سے احتجاجی پروگرامس شروع کردئے گئے ہیں۔ عوام بھی رضاکارانہ طور پر سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف ریلیاں اور مظاہرے منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اترپردیش میںاس احتجاج کو سبوتاج کرنے تشدد برپا کیا گیا اور یہاں تقریبا 20 اموات ہوگئیں ۔ احتجاج میں حصہ لینے والوں کو دبانے اور کچلنے تشدد کا راستہ اختیا رکرکے عوام پر ہرجانہ عائد کیا گیا ۔ چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی جانب سے بدلہ اور انتقام کا اعلان کیا گیا ۔دارالحکومت دہلی میں خون منجمد کردینے والی سردی کی پرواہ کئے بغیر خواتین تک بھی احتجاج پر اتر آئی ہیں اور راتوں میں تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔ زبردست عوامی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے کئی غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے چیف منسٹروں نے اس قانون پر اپنی اپنی ریاستوں میں عمل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ حالانکہ یہ ابھی تک اعلان ہی ہے لیکن یہ قابل خیر مقدم ضرور تھا ۔ اب کمیونسٹ اقتدار والی ریاست کیرالا کے چیف منسٹر پی وجئین نے سب سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ریاستی اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس قانون سے دستبرداری اختیار کرلینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ کمیونسٹ جماعتوں کی جانب سے یکم جنوری سے ملک گیر سطح پر ایک ہفتہ طویل احتجاجی پروگرامس کا اعلان کیا گیا ہے لیکن کیرالا میں حکومت کی جانب سے اسمبلی میں قرار داد کی منظوری اس جدوجہد میں کمیونسٹوں کی سنجیدگی کا ثبوت ہے ۔ یہ اپنے قول و فعل میں یکسانیت ثابت کرنے کی ایک بہترین مثال بھی ہے ۔
ملک میں کئی ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ پنجاب ‘ مہاراشٹرا ‘ چھتیس گڑھ ‘ مغربی بنگال اور دوسروں نے سی اے اے اور این آر سی کے بعد این پی آر پر بھی عمل نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں بھی چیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن تلنگانہ میں ابھی تک ایسا اعلان نہیں ہوا ہے ۔ حالانکہ اس سلسلہ میںچیف منسٹر سے نمائندگی کی گئی تھی لیکن انہوں نے ایک دعوی کے مطابق دو دن میں فیصلہ کرنے کا تیقن دیتے ہوئے سب کو ٹال دیا تھا اور اب تک بھی اس تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔ جو اشارے مل رہے ہیں وہ مشکوک ہیں تاہم ان پر بھی کوئی واضح انداز میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ جن ریاستوں میں غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومتیں ہیں یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سی اے اے اور این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کریں ۔ اس سلسلہ میں واضح احکام جاری کئے جائیں۔ جس طرح کیرالا میں چیف منسٹر وجئین کی جانب سے اسمبلی میں قرار داد منظور کروائی گئی ہے اسی طرح ہر غیر بی جے پی ریاتس میں قرار داد منظور کرواتے ہوئے مرکز پر دباو ڈالا جانا چاہئے ۔ اس طرح کے اقدامات ہی این آر سی و این پی آر پر عمل نہ کرنے کا اعلان کرنے والے قائدین اورسیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا ثبوت ہوسکتے ہیں۔ محض عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے اعلانات کرنا سبھی کیلئے ممکن ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں مرکزی حکومت کی سنجیدگی سے مخالفت صرف عملی اقدامات کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔
بہار میں نتیش کمار زیر قیادت حکومت بھی اس مسئلہ پر مخمصہ میں ہے ۔ ایک طرف تو وہ بی جے پی کی حلیف ہے لیکن اسے این آر سی اور این پی آر پر عمل سے مسلمانوں کی تائید سے محرومی کے اندیشے بھی ہیں۔ اسی طرح جھارکھنڈ میں نئی حکومت تشکیل پائی ہے ۔ یہ بھی غیر بی جے پی اتحاد ہے ۔ اس حکومت کی جانب سے بھی کام کاج کو سنبھال لئے جانے کے بعد این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کا امکان ہے ۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کے چیف منسٹروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک اجلاس منعقد کرتے ہوئے اس سلسلہ میں مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے پر غور کریں۔ تمام چیف منسٹروں کے مشترکہ اختلاف اور مخالفت کے بعد مرکزی حکومت پر دباو میں اضافہ ہوگا کہ وہ اس طرح کے متنازعہ قانون سے دستبرداری اختیار کرلے ۔ ایسا کرنا تمام اپوزیشن چیف منسٹروں کی سنجیدگی کا امتحان ہی ہوگا ۔