کیرالا حکومت کا مستحسن اقدام

   

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا
کیرالا حکومت کا مستحسن اقدام
کیرالا کی حکومت نے شہریت ترمیمی بل کو غیر دستوری قرار دینے کے مطالبہ کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے قبل بھی کیرالا اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف قرار داد بھی منظور کرالی گئی ۔ ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے صرف ایک ریاست کیرالا نے مرکز کی مودی حکومت کی من مانی کو روکنے کے لیے پہل کی ہے ۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے تعلق سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ ملک و بیرون ملک سے مودی حکومت پر تنقیدیں ہورہی ہیں ۔ اکیسویں صدی کا ہٹلر قرار دیا جارہا ہے ۔ مودی حکومت کو ہندوستان کے امن و سکون کے لیے خطرناک لیڈر بتایا جارہا ہے ۔ ہندوستانی تہذیب اور انسانی قدروں کو پامال کرنے کا عادی اس لیڈر نے ہندوستانی دستور کو ہی پلٹ کر رکھدینے کی خفیہ مہم پر ہے ۔ عالمی سطح پر یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ اگر نریندر مودی کا ہاتھ نہ روکا گیا تو بہت سارے انسانی المیہ وجود میں آسکتے ہیں ۔ مودی کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے اتنا کافی تھا کہ عوام انہیں مسترد کردیتے لیکن انہوں نے عوام کو گمراہ کیا اپنے غلط وعدوں اور دعوؤں سے ملک کے رائے دہندوں کی بڑی تعداد کے ساتھ دھوکہ کیا ۔ دن گذرنے کے ساتھ مودی کے سیاسی مقاصد کافی حد تک واضح ہوگئے ۔ اب عوام نے ہوش سنبھالا ہے اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کیا ہے ۔ ان احتجاجیوں کا ساتھ دینے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے مگر قومی سطح کے اس نازک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جس طاقت اور شدت کی ضرورت ہے اس میں کمی دکھائی دیتی ہے ۔ صرف ایک ریاست کیرالا نے سپریم کورٹ میں سی اے اے کو چیلنج کیا ہے اگر اس ریاست کے ساتھ دیگر کئی ریاستی حکومتیں بھی سپریم کورٹ سے رجوع ہوں تو سی اے اے کو واپس لینے اسے غیر دستوری قرار دینے کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ ملک میں اس وقت ایک عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ لوگ احتجاج کررہے ہیں اور چپ ہوجاتے ہیں ۔ حکومت بھی سمجھ رہی ہے کہ یہ احتجاج تو صرف چند دنوں کا ہے ۔ بعد ازاں سب تھک ہار کے بیٹھ جائیں گے ۔ حکومت کیرالا نے ہی ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھاتے ہوئے سی اے اے کو ایک خطرناک قانون قرار دیا اور اسے واپس لینے تک جدوجہد کرنیکا عہد کیا ہے ۔ چیف منسٹر کیرالا پنیرائی وجین نے قرار داد منظور کروائی ۔ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا اعلان کیا ۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیف منسٹر نے اس طرح کی ہمت نہیں دکھائی ۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے خود کو شروع سے ایک سیکولر لیڈر کہا ہے لیکن اقتدار کے مزے حاصل ہونے کے بعد وہ بھی زعفرانی رنگ میں رنگ گئے ہیں ۔ انہوں نے تلنگانہ کے عوام کے احساسات اور جذبات کو نظر انداز کر کے اپنے مفادات کی خاطر سی اے اے کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جنوبی ہند کی ریاست کیرالا کی طرح وہ بھی سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرواتے اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ۔ ٹاملناڈو کو بھی اس سلسلہ میں پہل کرنے کی ضرورت تھی۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر جگن کو بھی سی اے اے کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے تھی لیکن یہ جنوبی ہند کی روایات کے برعکس کام کررہے ہیں ۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں جہاں کانگریس کی حکومتیں ہیں وہاں بھی خاموشی ہے ۔ اگر کانگریس حکمراں ریاستوں کی جانب سے بھی اسمبلی میں قرار داد منظور کروائی جائے اور سپریم کورٹ میں سی اے اے کو چیلنج کیا جائے تو کیرالا کے چیف منسٹر کی پہل اور کوشش میں مضبوطی آجائے گی ۔ کانگریس بظاہر عوام کی ہمدردی حاصل کرنے والی کوششوں تک خود کو مصروف رکھتی نظر آرہی ہے ۔ اصل بنیادی کام کرنے سے ڈرامائی طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے سی اے اے کی شدت سے مخالفت کی ہے مگر اس سے آگے بڑھکر کچھ نہیں کیا گیا ۔ ہندوستانی شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لیے جارہے ہیں اور یہ ریاستی حکومتیں دستور کو بچانے کی فکر سے دور نظر آرہی ہیں ۔ ہندوستان کی تاریخ ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے جانی جاتی ہے ۔ اس میں نفرت اور فرقہ واریت کا زہر ملانے کی کوشش کرنے والی طاقتیں اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوں تو پھر ہندوستان کا وجود خطرہ میں ہوگا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیکولر حکومتوں کو بھی دستور بچانے کی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا ۔۔