کے سی آر حکومت کے ڈھیر سارے وعدے عمل صفر میڈیا جانبدار

   

نعیم وجاہت

حضرت علیؓ کا قول ہے :
’’ ہمیشہ اکڑے نہ رہو کیونکہ جو چیز جُھکتی نہیں وہ ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔
ضِد اور ہٹ دھرمی انسان کی کامیابیوں کو ناکامی میں تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اقتدار پر فائز ہمارے سیاستداں اقتدار کو مستقل تصور کرتے ہوئے ضِد اور ہٹ دھرمی کو اپنی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں ہٹلر اور مسولینی جیسے حکمرانوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ غرور، تکبر، ضِد، ہٹ دھرمی دراصل اقتدار اور دولت کے نشہ میں دُھت عناصر کی پہچان ہے، انہیں صرف اپنا حکم چلانے کی بیماری ہوجاتی ہے اور یہ بیماری اقتدار سے محرومی کا بھی سبب بن جاتی ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں احتجاج اور دھرنے منظم کرنے کی تو گنجائش ہے لیکن آمریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ضِد اور ہٹ دھرمی نے کبھی کسی کا بھلا نہیں کیا ہے بلکہ معاشرہ کو اس سے نقصان ہی پہنچا ہے۔ ڈر و خوف پھیلاتے ہوئے ووٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں اور انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے مگر عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے۔ یہاں پر وہی لوگ کامیاب ہوئے ہیں جو اُصولوں پر قائم رہتے ہیں اور وعدوں کو نبھاتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ تلنگانہ کی تحریک میں سب کو ساتھ لے کر چلنے والے کے چندر شیکھر راؤ تحریک کی کامیابی اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد یکا و تنہا ہوگئے ہیں۔ سکریٹریٹ سے نظم و نسق چلانے کے بجائے انہوں نے اپنے آپ کو اپنی قیامگاہ تک محدود کرلیا ہے، اور اقتدار میں انھیں حصہ دار بنایا جارہا ہے جو کبھی تحریک کا حصہ نہیں تھے بلکہ انہوں نے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے تحریک کو سبوتاج کرنے کی کوشش کی تھی۔
اقتدار حاصل ہوتے ہی کے سی آر نے تحریک کا مرکز بنی رہنے والی تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو ہی ناکارہ بنادیا اور کمیٹی کے کنوینر پروفیسر کودنڈا رام کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ اس کے بعد دیگر قائدین کو وزارت اور دوسرے عہدے دیتے ہوئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی سرگرمیوں سے علحدہ کردیا، اس طرح جوائنٹ ایکشن کمیٹی ٹوٹ کر بکھر گئی۔ تلنگانہ تحریک میں غیر معمولی رول ادا کرنے والے آر ٹی سی کے ملازمین ہڑتال کررہے ہیں مگر ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا ہے جیسے وہ آندھرائی باشندے ہیں‘ ان سے بات چیت کرنا چیف منسٹر نے گوارا نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ ہائی کورٹ کی مداخلت کو بھی کے سی آر نے پسند نہیں کیا۔ مسئلہ کی یکسوئی کیلئے ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججس پر مشتمل ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جس کو حکومت نے قبول نہیں کیا۔
آر ٹی سی ہڑتال کے دوران دلبرداشتہ ہوکر کئی ملازمین نے خودکشی کی ہے مگر چیف منسٹر نے اس پر بھی کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ تلنگانہ تحریک میں ہر خودکشی پر سیاست چمکانے کی کوشش کی گئی مگر علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد کسانوں، انٹر میڈیٹ کے طلبہ اور اب آر ٹی سی ملازمین کی خودکشیوں کو اس طرح سے نظرانداز کیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ عوام کی نبض پڑھنے والے ہی کامیاب سیاستداں ہوتے ہیں مگر ملک میں تباہ کن سیاست کو ہی کامیابی تصور کیا جانے لگا ہے اور جزوقتی کامیابی کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے سربراہان وزیر اعظم نریندر مودی کے نقش قدم پر گامزن ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہندوستان میںتمام سرکردہ سیاسی جماعتوں میں شامل ضدی طبیعت کے حامل قائدین نے وہی راہ اختیار کرلی ہے جس کو مودی نے اپنایا ہے۔ ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بھی اُسی ڈگر پر چلتے ہوئے خود کو کامیاب سیاستداں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔ کئی معاملات میں مودی اور کے سی آر میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مودی نے سالانہ ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور کے سی آر نے بھی ایک لاکھ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملک کی معیشت اندرون 50 یوم درست نہیں ہوگی تو انھیں بیچ چوراہے پر پھانسی پر لٹکادیا جائے۔ کے سی آر نے بھی کہا تھا کہ اگر عام انتخابات سے قبل گھر گھر نلوں سے پینے کا پانی نہیں پہنچا سکے تو اپنا سر قلم کرلیں گے اور عوام سے دوبارہ ووٹ نہیں مانگیں گے۔ مگر کے سی آر نے اس وعدہ کو پورا کرنے سے پہلے ہی اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کروائے اور دوبارہ کامیابی حاصل کی۔
ٹی آر ایس نے 2014 کے عام انتخابات سے قبل مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کو 2018 کے انتخابات میں بھی دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ غریب اور بے گھر افراد کو 2.75 لاکھ ڈبل بیڈ روم مکانات دینے کا وعدہ کیا گیا ساتھ ہی ایس سی طبقات کو فی خاندان تین ایکر اراضی دینے اور ایک کروڑ ایکر اراضی کو سیراب کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پہلی میعاد کے ان وعدوں کو تو پورا نہیں کیا گیا۔ دوسری میعاد میں بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر نظرثانی کرنے اور حد عمر کو 56 سال سے بڑھا کر 61 سال کرنے اور بے روزگار نوجوانوں کو ماہانہ 3016 روپئے وظیفہ دینے کے علاوہ ڈھیر سارے وعدے کئے گئے جس پر ابھی تک کوئی عمل آوری شروع نہیں ہوئی ہے۔ ان وعدوں کی تکمیل کیلئے حکومت کو تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپئے کی ضرورت ہے جبکہ معاشی بحران کے باعث بجٹ میں پہلے ہی 36 ہزار کروڑ روپئے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔
جس طرح مودی فرقہ پرستی کا چہرہ بن کر اُبھرے ہیں وہی سافٹ ہندوتوا چہرہ کے سی آر کا بھی نظر آتا ہے ۔ آلیر میں مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر کردیا گیا، ریاست میں دو مساجد کا انہدام کردیا گیا، مسلم تحفظات کے وعدہ کو فراموش کردیا گیا، سرکاری مصارف سے ریاست میں بڑے بڑے منادر تعمیر کئے جارہے ہیں ، اضلاع کی تنظیم جدید میں ایک بھی ضلع کا نام مسلم شخصیت کے نام سے موسوم نہیں کیا گیا۔ منادر کے پجاریوں کو سرکاری ملازمین کے مماثل تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں جبکہ مساجد کے ائمہ و مؤذنین کو 8 تا10 ماہ تک تنخواہوںکیلئے انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کی ترقی ، انیس الغرباء یتیم خانہ اور جامعہ نظامیہ کے آڈیٹوریم کی تعمیر کیلئے وقف بورڈ سے فنڈ جاری کئے جارہے ہیں ۔چیف منسٹر نے 5 سال قبل اجمیر میں حیدرآباد کے زائرین کیلئے رباط تعمیر کرنے اور حیدرآباد میں عالمی شہرت یافتہ اسلامک سنٹر قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس پر کوئی عمل آور ی نہیں ہوئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ اقلیتی بجٹ میں اضافہ کرنے کے بجائے اس میں کٹوتی کردی گئی ہے۔
مسائل اور وعدوں پر آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اسمبلی میں آواز اُٹھانے کیلئے مجلس موجود ہے مگر وہ حکومت کی حلیف بنی ہوئی ہے۔ اقلیتی بجٹ میں کٹوتی پر احتجاج کرنے کے بجائے جو بجٹ بچا ہے کم از کم اس کو تو مکمل خرچ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ حکمران جماعت ٹی آر ایس میں بھی مسلم قائدین موجود ہیں مگر انہوں نے ملت کے مسائل پر کبھی آواز اُٹھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ شاید عہدوں کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں مگر جب بھی تاریخ میں نہیں یاد کیا جائے گا ان کا شمار خود غرضوں میں ہوگا۔ انہیں جو بھی وزارت اسمبلی اور کونسل کی رکنیت ملی ہے وہ مسلمانوں کے کوٹہ میں ملی ہے۔ یہی قائدین جب کانگریس میں تھے تب ان کے منہ میں زبان تھی لیکن ٹی آر میں شامل ہونے کے بعدگونگے اور بہرے ہوگئے ہیں۔
آج جس طرح حکومت اور چیف منسٹر کو جھنجھوڑا جارہا ہے ایک دن قوم ان سے بھی حساب طلب کرے گی۔ شرم کی بات یہ ہے کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی تعصب برتتے ہوئے ان کے یوم پیدائش کو مرکز اور ریاست نے فراموش کردیا۔ ایک ہی تو ایسے مسلم مجاہد آزادی ہیں جن کی یوم پیدائش کو سرکاری طور پر منانے کی روایت ہے لیکن اس کو بھی فراموش کردیا گیا۔ تلنگانہ میں نام تو نظام کا لیا جارہا ہے مگر کاکتیہ طرز حکمرانی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ وعدوں کو پورا کرنا اور مسائل کو حل کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر موجودہ سیاستدان صرف ووٹ حاصل کرنے کیلئے وعدے کرتے ہیں اور اقتدار حاصل ہوتے ہی انہیں بھلا دیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کیلئے رائے دہندے بھی برابر کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ وعدوں کو فراموش کرنے والے قائدین کو نظرانداز کرنے کے احساس سے غافل ہوگئے ۔ دیانتداری ، وفاداری ، ایمانداری پر پیسہ حاوی ہورہا ہے جس کے سبب ملک کی جمہوریت خطرہ میں پڑگئی ہے۔ ظالم ، جابر ، غنڈے ، رشوت خور، سود خور، قاتل، دغا باز لوگ فیصلہ ساز اداروں میں داخل ہورہے ہیں جس کے باعث جوابدہی کا رجحان ختم ہوگیا ہے۔ اب تو معاملہ ’’ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘‘ والا ہوگیا ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلایا جانے والا میڈیا بھی اب غلامی کا شکار ہوگیا ہے جسے گودی میڈیا کا نام دیا جارہا ہے۔ میڈیا غیر جانبدار رہنے کے بجائے جانبدار ہوگیا ہے۔ اس پر سیاسی جماعتوں اور کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ حالات کو صحیح ڈھنگ سے عوم کے سامنے پیش کرنے کے بجائے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت حالات بنانے کی خبریں ترسیل کی جارہی ہیں۔ قومی ٹیلی ویژن کے مباحث میں ان کے تیار کردہ ایجنڈہ کی مخالفت کرنے والوں کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے اور ان کے ایجنڈے کی تائید کرنے والوں کو سر پر بٹھاکر رکھا جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد فرقہ پرستی، اشتعال انگیزی اور گمراہی میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ ہرکوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی کمزوریوں کو ٹٹولنے میں مشغول ہوگیا ہے۔ اخلاقیات کا تو ہر دن نہیں بلکہ گھنٹوں میں قتل کیا جارہا ہے۔ عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ کہیں باپ کی جانب سے بیٹے کا قتل کیا جارہا ہے تو کہیں بیٹے کی جانب سے ماں کا قتل کیا جارہا ہے۔ کہیں یہ بھی واقعات دیکھنے اور سننے کوملے ہیں کہ ایک بیٹی نے اپنے ناجائز تعلقات چھپانے کیلئے ماں کا قتل کردیا تو کہیں ماں نے اپنے ناجائز تعلقات چھپانے کیلئے اپنے عاشق کے ذریعہ اپنے ہی کمسن بچوں کا قتل کروادیا ہے۔ یہ تمام واقعات دِل دہلادینے والے ہیں اور انسانیت کو جھنجھوڑ رہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔٭