گاندھی ہی بابائے قوم مودی کی تعریف ٹرمپ کی چال

   

رام پنیانی

ہیوسٹن میں حالیہ ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ ایک سے زائد وجوہات کی بناء نظروں میں آیا۔ ایک طرف مودی کہہ رہے تھے کہ ہندوستان میں ’سب کچھ ٹھیک ہے‘، دوسری طرف اسٹیڈیم کے باہر ہزاروں احتجاجیوں کی موجودگی ہندوستان میں حالات کی حقیقی تصویر پیش کررہی تھی۔ اور اسی موقع پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جہاں ایک طرف مواخذہ کے عمل کا سامنا ہونے والا ہے، وہیں دوسری طرف وہ اگلے امریکی انتخابات میں اپنے انتخابی امکانات کو بڑھاوا دینے کی کوشش کررہے تھے۔ جیسا کہ وہ عادی ہیں، وہ دورہ کنندہ شخصیتوں کی خوشامد کرتے ہیں تاکہ اپنی ڈپلومیسی کے مقاصد کی تکمیل ہوسکے۔ انھوں نے مودی کی تعریف میں انھیں آسمان پر بٹھا دیا؛ ان کو عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے یاد ہے انڈیا پہلے کافی شکستہ تھا۔ کافی اختلاف اور لڑائی کا ماحول تھا اور انھوں (مودی) نے سب کو یکجا کیا ہے۔ جیسا کہ کوئی بات کرتا ہے۔ شاید وہ ’’فادر آف انڈیا‘‘ ہے۔
خود امریکہ میں مودی کے تعلق سے کئی آراء ہیں۔ گزشتہ مرتبہ اسی طرح کی بحث 2019ء کے انڈیا جنرل الیکشن سے عین قبل چھڑی تھی۔ انتخابات کے موقع پر نامور امریکی میگزین ’ٹائم‘ نے نمایاں مضمون ’’مودی: دی ڈیوائیڈر اِن چیف‘‘ شائع کیا تھا۔ بے شک، اسی میگزین کے شمارہ میں ایک اور آرٹیکل میں انھیں ایسے شخص کے طور پر پیش کیا گیا جو ہندوستان میں معاشی اصلاحات کے عمل کیلئے مرکزی کردار ہے۔ ہمیں جو کچھ ہندوستان میں نظر آتا ہے اور جو کچھ ٹائم میگزین کے نمایاں آرٹیکل نے پیش کیا، وہ مختلف ہے، یعنی مودی کا انتشار پسندانہ رول۔ ہندوستان میں مشاہدہ یہی ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے پر تفرقہ پسند قوتیں مضبوط ہوئی ہیں، وہ قوتیں جو ہندو راشٹرا چاہتی ہیں۔ قطعیت سے دیکھیں تو یہ وہی قوتیں ہیں جو گائے۔ بیف کو موضوع بناکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تشدد برپا کرتی رہی ہیں، فرقہ وارانہ دوریاں بڑھ گئی ہیں اور شناختی مسائل اس حد تک اُبھر آئے ہیں کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
اقلیتوں کو الگ تھلگ کیا جارہا ہے اور دلتوں۔ آدیواسیوں کو حاشیہ پر ڈالا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ زبان کے معاملے میں بھی ہندی کو قومی زبان بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ شناختی مسائل جو جذباتی ماحول پیدا کرتے ہیں اور عوام کو تقسیم کرتے ہیں، کافی اُبھر آئے ہیں۔
جہاں ٹرمپ کا لب و لہجہ کچھ ہے، وہیں امریکہ میں سابقہ صدارتی انتخابات کے پُرامید برنی سینڈرس نے ایک ٹوئٹ میں اشارہ دیا کہ ٹرمپ آمریت پسند قائدین جیسے مودی کو طاقتور بنارہے ہیں، ایسے قائدین جو اقلیتوں کے خلاف مذہبی ایذا رسانی، جبر و استبداد اور بے رحمی کی سرپرستی کررہے ہیں۔ چند سال قبل تک خود مودی نے نہایت انتشار پسندانہ زبان استعمال کی تھی۔ اب یہ کام ان کے معاونین کو منتقل کیا جاچکا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ مخالف مسلم بیانات وقفے وقفے سے دیتے ہیں۔ اننت کرشنا ہیگڈے اپنے جیسے کئی لوگوں کی طرح ہندو قوم کی کھلے عام بات کررہے ہیں۔ اس فہرست میں مالیگاؤں دھماکہ کی ملزمہ اور ضمانت پر رہا سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھی شامل کرلیں، جو اور باتوں کے بشمول گاندھی کے قاتل گوڈسے کی تعریف کررہی ہے۔ دو ماہ قبل آرٹیکل 370 کی تنسیخ کردی گئی جس کے ساتھ کشمیر کے عوام کو بیگانہ بنادیا گیا ہے۔
ایک طرح سے ٹائم میگزین کے بڑے مضمون نے ہندوستان کے موجودہ حالات کی تصویر پیش کی ہے۔ لیکن ٹرمپ تاریخ کے اسکالر نہیں، وہ تو اس حقیقت سے تک ناواقف ہیں کہ کیوں انڈیا مہاتما گاندھی کو ’بابائے قوم‘ قرار دیتا ہے۔ ٹرمپ کے تاثرات امریکہ کی قربت کو بتدریج ہندوستان کی طرف منتقل کرنے ان کی سیاسی مجبوری کے زیراثر ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی حمایت کرنے امریکہ کیلئے وجہ سرد جنگ کے دور کی مجبوری تھی۔ بعد میں وہ پاکستان کی تائید کرتا رہا کیونکہ امریکہ کے مغربی ایشیا کی تیل کی دولت پر کنٹرول کرنے کے عزائم اس کا اصل مقصد رہے اور پاکستان کو مغربی ایشیا میں امریکی عزائم کا حصہ بنایا گیا۔
اب چین بڑی طاقت کے طور پر اُبھر آنے پر اور چین کی پاکستان سے قربت کے پیش نظر امریکہ بتدریج ہندوستان کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ یہ چند عوامل ہوسکتے ہیں جن کے سبب ٹرمپ اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ امریکہ کسی حد تک پاکستان کے ساتھ رشتے کو بھی برقرار رکھ رہا ہے اور کافی چالاکی سے ٹرمپ نے کہا کہ مودی نے ہیوسٹن ریلی میں جارحانہ ریمارکس کئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ طور پر وہ دونوں طرف سے اپنی روٹی سینک رہے ہیں۔
ٹرمپ کی منطق پر کئی گوشوں سے ردعمل نے ان کے کھوکھلے پن کو آشکار کیا۔ گاندھی کے پوتے تشار نے ٹوئٹ کیا کہ آیا ٹرمپ چاہیں گے کہ جارج واشنگٹن کو امریکا کے بانیوں میں سے ہٹا دیا جائے؟ جو کچھ ٹرمپ نے بیان کیا، اس پر انھیں تکلیف ہوئی جن کیلئے گاندھی کو ’بابائے قوم‘ ہیں۔ بہرحال مودی نظریہ کے حامی گاندھی کو بابائے قوم تصور نہیں کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ ہندوستان، ہندو قوم ہے اور قدیم زمانے سے ہے، تو پھر کس طرح گاندھی اس کے بانی ہوسکتے ہیں۔ گاندھی کا بابائے قوم ہونا قوم پرستی کے نظریہ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
وہ تمام جو ’ہندوستان بطور قوم کی تعمیر‘ کا حصہ رہے، وہ گاندھی کو مرکزی اتحاد والی شخصیت مانتے ہیں۔ مخالف سامراج تحریک میں تحریک آزادی کے دوران گاندھی ہی تھے جنھوں نے ملک کو متحد کرنے کا رول انجام دیا، جو مذہب، خطہ، ذات اور زبان کے خطوط پر منتشر تھا۔ کمیونلسٹ جیسے مسلم لیگ کے حامیوں نے گاندھی کو ہندو لیڈر کے طور پر دیکھا اور ہندو کمیونلسٹوں نے گاندھی کو مسلمانوں کے خوشامدی جانا۔ کافی گہرے اور پیچیدہ عمل کے ذریعہ ہندوستان ایک قوم کے طور پر آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے اُصولوں کے ساتھ اُبھرا۔ یقینا بھگت سنگھ، امبیڈکر، نہرو اور پٹیل نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں عظیم رول ادا کیا ہے۔ اس عمل میں کئی اجزاء رہے، مخالف سامراجیت سب سے نمایاں رہا جہاں بھگت سنگھ جیسی شخصیتوں نے اس نظریہ کو جوش دیا اور گاندھی نے عظیم ترین عوامی تحریک کی قیادت کی، اور یہ تحریک برطانوی سلطنت کے خلاف رہی۔ یہی سبب ہے کہ سبھاش چندر بوس نے 6 جولائی 1944ء کو سنگاپور ریڈیو سے نشریہ میں گاندھی کو بابائے قوم کہتے ہوئے ان سے آشیرواد چاہا تھا۔ سروجنی نائیڈو نے 6 اپریل 1947ء کو آزادی سے عین قبل گاندھی کو راشٹرپتا (بابائے قوم) کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ تو پھر ہم یہاں سے کدھر کی طرف جارہے ہیں، ہندو قوم پرستوں کے حامی ٹرمپ کی بات پر دیوانے ہوئے جارہے ہیں، اور وہ تمام جو ہندوستان کی جدوجہد آزادی کو سمجھتے ہیں اور جمہوری اقدار کو سربلند رکھتے ہیں، انھیں امریکی صدر کے اس بیان کے سبب تکلیف پہنچی ہے۔
ٹرمپ کا سطحی تبصرہ نہ ہندوستان کی تاریخ میں کھرا ہے، نا ہی اس سے واقفیت رکھنے والا جو کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے، یہ محض مہمان لیڈر کو خوش کرنے کیلئے حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ram.puniyani@gmail.com