زباں خنجر کی کُھلتی ہے ہُنر خاموش رہتے ہیں
لہو بہتا رہتا ہے بشر خاموش رہتے ہیں
گورنر ٹاملناڈو ایسا لگتا ہے کہ تنازعات میں گھرے رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ریاستی حکومت کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے اور انہوںنے ریاستی حکومت کے روانہ کردہ بلوں کو منظوری کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ بالآخر سپریم کورٹ سے اس مسئلہ کو رجوع کرنا پڑ اور سپریم کورٹ نے اس طرز عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کے بعد ٹاملناڈو کابینہ کے منظورکردہ بلز کو قانون کی شکل حاصل ہوئی ۔ اب گورنر ٹاملناڈو نے طلباء پر زور دیا کہ وہ جئے شری رام کا نعرہ لگائیں۔ یہ اظہار خیال دستوری ذمہ داری کے مغائر ہے ۔ دستوری عہدوں پر فائز رہنے والے افراد کو کسی مذہبی امتیاز کے بغیر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دستور نے سب کو پابند بنایا ہے کہ وہ مذہب کو شخصیت تک محدود رکھیںاور عوامی زندگی میں صرف دستور اور قانون کے مطابق کام کیا جائے ۔ گورنر کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے طلباء کو ایک مذہب کا نعرہ لگانے کی اپیل کرنا عہدہ کے وقار کے مغائر ہے اور دستوری ذمہ داری کے خلاف بھی اقدام ہے ۔ اس طرح کے طرز عمل اوراس طرح کی سوچ و فکرسے دستوری عہدہ کا وقار پامل ہوتا ہے ۔ مذہب ہر ایک کا شخصی معاملہ ہے اور مذہبی آزادی بھی ہمارے دستور میں سبھی شہریوں کو دی گئی ہے ۔ ایک شخص اپنے مذہبی نظریات کو کسی دوسرے پر مسلط نہیںکرسکتا اور نہ کسی پر اس بات کیلئے دباؤ ڈالا جاسکتا کہ وہ کسی مخصوص مذہب کی پابندی کرے یا اس مخصوص مذہب کے نعرے لگائے ۔ کوئی اپنی مرضی سے اپنے مذہب کے نعرے لگا رہا ہے تو اسے روکا بھی نہیں جاسکتا۔ تاہم طلباء برادری کو ایک مخصوص مذہب کے نعرے لگانے کیلئے ہدایت دینا یہ دستوری فرائض کے مغائر اقدام ہے اور دستوری عہدوں پر فائز افراد کو اس طرح کی ہدایات جاری کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں مذہبی طور پر غیرجانبدر رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم اس طرح کے نعرے لگانے کی ہدایات جاری کرنا در اصل ایک مخصوص مذہب کو فروغ دینے کے مترادف ہے اور گورنر کے عہدہ پرفائز رہتے ہوئے کسی کو ایسا نہیںکرنا چاہئے ۔
گورنر ٹاملناڈو ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے سرخیوںمیں رہنا پسند کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے رویہ اور اقدامات کی مخالفت اور عملا ان کو غیر قانونی قرار دئے جانے کے بعد انہوں نے اس جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے ایک مخصوص مذہبی نعرہ کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے ۔ خود ٹاملناڈو میں کئی سیاسی قائدین اور تعلیمی اداروں اور تنظیموں نے ان کے اس بیان کی مذمت کی ہے اور کچھ تعلیمی حلقوں نے تو انہیں گورنر کے عہدہ سے ہٹائے جانے کا بھی مطالبہ کردیا ہے ۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا بیان دیتے ہوئے گورنر ٹاملناڈو نے دستور کے دفعات کی خلاف ورزی کی ہے اور انہیں اس عہدہ سے بیدخل کیا جانا چاہئے ۔ سیاسی قائدین نے بھی اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک مخصوص ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مخالفانہ ریمارکس کے باوجود گورنر کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کیلئے اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ سیاسی قائدین کا یہ بھی ریمارک تھا کہ گورنر در اصل سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مایوسی کا شکار ہیں اور وہ اپنی مایوسی کا اظہار دوسرے طریقوں سے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی بجائے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں جٹ گئے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ دستوری ذمہ داری اور اس کے وقار کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اپنے عہدہ کے وقار کا بھی خیال رکھنے تیار نہیںہے ۔
مرکزی حکومت کو اس طرح کے معاملات کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ شخصی حیثیت میں کوئی بھی فرد اپنے مذہب کا کوئی بھی نعرہ لگا سکتا ہے ۔ اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے اور اعتقاد رکھ سکتا ہے لیکن سرکاری اور دستوری عہدوں پر فائز افراد کی کچھ ذمہ داریاںہوتی ہیں اورسب سے اصل ذمہ داری غیرجانبداری اور غیر امتیازی رویہ ہے ۔ گورنر ٹاملناڈو اس طرح کے بیانات دیتے ہوئے اپنی غیرجانبداری کو مشکوک بنا رہے ہیں اور لگاتار تنازعات کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس طرح کے تنازعات دستوری عہدہ کے وقار کیلئے ٹھیک نہیں ہیں۔ انہیں اپنے رویہ کا محاسبہ کرنے اور اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔