جامعہ کے طلبہ پر گولی چلانے سے قبل فیس بک پر لائیو جانے کے متعلق مذکورہ شخص سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔وہیں اس کے کچھ ویڈیو ز احتجاجی مظاہروں کی چمک پیش کررہے ہیں۔دیگر نے اس کو اپنے موبائیل فون کا سیلفی کیمرہ کے استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا ہے۔
Godse killed Gandhi 72 years ago on this very day. Jamia students were peacefully marching to pay their respects to Bapu on his martyrdom day. Godse reared his ugly hood again.
In this battle of Gandhi vs Godse, Bapu's message of peace and fraternity will win, once again #Jamia pic.twitter.com/iw1wyJH84W
— Umar Khalid (@UmarKhalidJNU) January 30, 2020
نئی دہلی۔جمعرات کے روز دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں سی اے اے کے خلاف احتجا ج کررہے مظاہرین کے خلاف گولی چلانے والا مذکورہ شخص واقعہ سے چند منٹ قبل اپنی تمام تر سرگرمیوں کو اپنے فیس بک لائیو میں پوسٹ کیاتھا۔
اس حملہ آورکو پولیس جوانوں نے اپنے قابو میں کرکے پولیس کی ویان میں بیٹھایا۔
क्यूँ @DelhiPolice आज लाठियाँ नहीं उठीं आपकी? सिर्फ़ निहत्थे छात्रों को देख कर ही ख़ून खौलता है न आपका? आज घर जा कर अपनी बहादुरी के क़िस्से ज़रूर सुनाना अपने परिवार को। https://t.co/GKK87uU5pf
— सुशांत सिंह sushant singh سشانت سنگھ (@sushant_says) January 30, 2020
جامعہ کے طلبہ پر گولی چلانے سے قبل فیس بک پر لائیو جانے کے متعلق مذکورہ شخص سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔وہیں اس کے کچھ ویڈیو ز احتجاجی مظاہروں کی چمک پیش کررہے ہیں۔
دیگر نے اس کو اپنے موبائیل فون کا سیلفی کیمرہ کے استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا ہے۔دہلی کے شاہین باغ میں جاری احتجاج کے خلاف بدلے کے منصوبے پر مشتمل سلسلہ وار پیغامات بھی وہاں موجود ہیں۔
What is the @DelhiPolice doing watching from a distance? https://t.co/svrZcq5yOo
— Faye DSouza (@fayedsouza) January 30, 2020
ایک پوسٹ میں کہاگیاہے کہ”شاہین باغ‘ گیم اور“۔ایک پوسٹ میں اس نے اپنے فیس بک فرینڈس پر زوردیاہے کہ اس کو کال نہ کریں۔ تمام پوسٹ ہندی میں ہیں۔
مذکورہ شخص جو کم عمر ہے نے مظاہرین پر گولی چلائی جس کی وجہہ سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔ ٹیلی ویثرن کیمروں نے مذکورہ شخص کو ہلکے رنگ کے پینٹ اور گہرے رنگ کی جیاکٹ میں دیکھا یا‘
جو سنسان سڑک سے گذرتاہوا پولیس کے نصب کردہ بریکیٹس کے قریب پہنچااور موڑ کر مظاہرین سے ہندی میں چیخ کر کہنے لگا”یہ لو آزادی“۔
اس کو سر کے اوپر سے آتشی اسلحہ لہراتے ہوئے بھی دیکھاگیاہے
یونیورسٹی میں اکنامکس کی تعلیم حاصل کررہی ایک طالباء آمینہ آصف نے پی ٹی ائی کو بتایا کہ”ہم ہولی فاطمہ اسپتال کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں پر پولیس نے بریکٹس کھڑے کردئے۔
اچانک بندوق بردار ایک شخص باہر آیاہے اور گولیاں چلائیں۔ ایک گولی میرے دوست کے ہاتھ میں لگی“۔ مذکورہ طلبہ جامعہ سے مہاتماگاندھی یادگار راج گھاٹ کی طرف کوچ کررہے تھے۔
مگر جامعہ یونیورسٹی کے قریب کے ہولی فاطمہ اسپتال کے پاس نہیں روک دیاگیا۔علاقے میں پھیل کر طلبہ پولیس سے واپس جانے کا استفسار کررہے تھے۔
کیونکہ وہ لوگ ”گو بیک‘ گوبیک“ کے نعرے لگارہے تھے پولیس عہدیداروں نے استفسار کیاکہ امن کو برقرار رکھیں اور پرامن اندا ز میں اپنا احتجاج کریں۔